یعنی: تہلیل (لاالہ الا اللہ) یا اس کے علاوہ کسی ذکر سے جیسا کہ امام نووی نے بیان کیا: پس اگر تہلیل میں اضافہ کیا تو اپنی طرف سے کسی عدد سے مقید نہیں کرنا چاہیے جیسا کہ صوفیاء کرتے ہیں۔ اذکار میں سو سے زیادہ کا عدد صحیح نہیں، جیسا کہ میں نے اس ’’الصحیحۃ‘‘ میں حدیث (۲۷۶۲) کے تحت بیان کیا۔ اور دیکھیں: ’’الکلم الطیب‘‘ (ص۶۸) کی تخریج۔
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’الضعیفۃ‘‘ (۱۱/۴۶۶۔۴۶۷) میں حدیث رقم (۵۲۹۶) کے تحت بیان کیا: جان لیجیے کہ وہ عدد (ہزار) اس سے زیادہ ہے جس کا مجھے ذکر کے بارے میں مروی روایات میں پتہ چلا ہے، اور وہاں ایک اور حدیث ہے جو تہلیل کے بارے میں ہزار مرتبہ کے متعلق ہے، لیکن وہ منکر ہے، جبکہ محفوظ روایت یہ ہے:
(( مِئَۃُ مَرَّۃٍ اِذَا اَصْبَحَ، وَمِئَۃُ مَرَّۃٍ اِذَا أَمْسَ۔))
’’سو مرتبہ جب صبح کرے، اور سو مرتبہ جب شام کرے۔‘‘
جیسا کہ ’’الصحیحۃ‘‘ میں اسے واضح کیا گیا ہے۔
رہا اس سے زیادہ مرتبہ ، تو وہ صوفیاء اور طریقت والوں کی بدعات میں سے ہے!
رہی وہ حدیث: ’’جس نے ستر ہزار مرتبہ ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کہا، تو اس نے اللہ سے اپنی جان کا سودا کر لیا۔‘‘
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بیان کیا۔ جبکہ ان سے پوچھا گیا:
’’وہ صحیح ہے نہ حسن اور نہ ہی ضعیف،بلکہ وہ باطل موضوع ہے، اسے روایت کرنا تب ہی حلال ہے جب اس کے ساتھ اس کا حال بیان کر دیا جائے۔‘‘
شیخ محمد بن احمد نجم الدین غیطی نے اسے ’’الابتہاج فی الکلام علی الاسراء و المعراج‘‘ (۵/۱) میں نقل کیا، پھر اس پر اس طرح تعلیق نقل کی:
’’لیکن کسی شخص کے لیے مناسب ہے کہ وہ سلف کی اقتداء میں، جس نے اس کی وصیت کی ہو، اس کے قول کو مانتے ہوئے اور ان کے افعال سے برکت حاصل کرتے ہوئے ایسے کرنا چاہیے۔
یہاں سلف سے مراد: صوفیاء کے مشائخ، جس نے اس کی وصیت کی ہو، اس سے ابن عربی مراد ہے، جیسا کہ حدیث سے قبل اس نے خود اسے ذکر کیا۔
اے مسلمان! دیکھ اس نے کس طرح ان کے کلام کو اور ان کے فعل کو اللہ تعالیٰ کے کلام، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام اور آپ کے فعل کے مقام پر فائز کیا؟! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿اَمْ لَہُمْ شُرَکَآئُ شَرَعُوْا لَہُمْ مِّنْ الدِّیْنِ مَا لَمْ یَاْذَنْ بِہِ اللّٰہُ﴾ (الشورٰی:۲۱) ’’کیا ان کے کچھ شریک ہیں کہ جنہوں نے ان کے لیے دین کا وہ
|