میں ہے، سوائے ایک طریق کے، وہ ابواسحاق السبیعی عن حبشی کا طریق ہے۔ زیادہ تر طرق تو صرف السبیعی تک ہیں، اور اس حال میں یہ کہنا صحیح نہیں: ’’متعدد طرق سے‘‘ یہ تو اس شیعی جیسا متساہل یا مدلس شخص ہی کہہ سکتا ہے۔
(۶)… اس کا یہ کہنا: ’’وہ سب صحیح ہیں‘‘۔ میں کہتا ہوں: یہ دوہرا جھوٹ ہے، کیونکہ اس کا صرف ایک ہی طریق ہے، جیسا کہ اس کا بیان ابھی گزرا، کیونکہ اس پر صحیح کا اطلاق درست نہیں، کیونکہ اس میں متفرد کا اختلاط ہے اور وہ السبیعی ہے اور وہ عنعنہ سے روایت کرتا ہے، جیسا کہ اس کا بیان گزرا۔
پھر جان لیجیے کہ اس شیعہ کے اس کی کتاب مذکور میں بہت زیادہ جھوٹ ہیں، مزید برآں وہ اس علم سے لابلد ہے، اور وہ ضعیف و موضوع احادیث سے دلیل لیتا ہے اور وہ صحابہ کرام، ائمہ حدیث اور اہل السنہ پر جو طعن کرتا ہے وہ اس کے علاوہ ہے، یہ ایسا معاملہ ہے جس کی وجہ سے اس کی تردید کرنا ضروری ہو جاتا ہے، اور اس کی کتاب میں جو برائیاں، خطائیں اور جھوٹ ہیں ان سے پردہ اٹھانا لازم ہے، میں نے اس کی ضعیف اور موضوع احادیث کی جرح و تنقید میں بہت ہمت سے کام لیا، میں ان میں سے اب تک تقریباً سو احادیث جمع کرچکا ہوں، ان میں سے زیادہ تر یا سب کی سب علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت کے بارے میں ہیں اور وہ جو ضعیف اور موضوع کے مابین ہیں اور ان کے نمبر دوسری کتاب (۴۸۸۲۔ ۴۹۶۰) [1] میں ہیں، واللہ والمستعان۔
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’الصحیحۃ‘‘ (۵/۶۴۰۔۶۴۲) حدیث رقم (۲۴۸۷) کے تحت فرمایا:
’’تم میں سے کوئی اس قرآن کی تاویل پر قتال کرتا ہے۔ جس طرح میں نے اس کی تنزیل پرقتال کیا۔ پس ہم نے نظر اٹھا کر دیکھا جبکہ ابو بکر و عمر ہم میں موجود تھے۔ آپ نے فرمایا:‘‘ نہیں، لیکن وہ جوتا ٹانکنے والا۔یعنی علی رضی اللہ عنہ ۔‘‘[2]
تنبیہ…: عبدالحسین الشیعی نے اپنی ’’المراجعات‘‘ (ص:۱۸۰) میں اس حدیث کی تخریج میں بہت ہی بے تکی باتیں کی ہیں، اس نے اسے امام حاکم اورامام احمد کی طرف منسوب کرنے کے بعد کہا:
’’امام بیہقی نے اسے ’’شعب الایمان‘‘ میں، سعید بن منصور نے اپنی ’’سنن‘‘ میں، ابو نعیم نے ’’حلیہ‘‘ میں اورابویعلی نے ’’السنن‘‘، ۲۵۸۵ میں (ص۱۵۵) ’’الکنز‘‘ جزء ۶ میں روایت کیا ہے۔‘‘
میں نے کہا: یہ اس کی کتب حدیث سے مکمل لاعلمی اور اس کی قلتِ تحقیق پردلالت کرتی ہے، کیونکہ وہ حدیث جو ’’الکنز‘‘ میں ہے جس کی طرف اس نے اشارہ کیا ہے اس (حدیث) کے لیے اس میں یہ رموز ہیں ’’حم ع
|