’’الأم‘‘ (۵/۲۶۶) میں، امام احمد نے ’’مسائل عبد اللہ‘‘ (۱۰۱/۳۶۳) میں اور ’’مسائل صالح‘‘ (۳/۷۴/۱۳۷۴) میں، امام طحاوی نے ’’شرح المعانی‘‘ (۱/۲۵۸) میں، ابن عبد البر نے ’’الاستیعاب‘‘ میں، ابن الجوزی نے ’’دفع شبہ التشبیہ‘‘ میں، النووی نے ’’المجموع‘‘ میں اور ابن الوزیر نے ’’العواصم والقواصم‘‘ (۱/۳۷۹۔۳۸۰) میں روایت کیا اور ان کے علاوہ بہت ہی زیادہ ہیں جن کا شمار کرنا ممکن نہیں، اور ان میں بعض ایسے مبتدع بھی ہیں جو اہل السنہ سے اپنی عداوت کے حوالے سے مشہور ہیں، اور ان کے خلاف ردّ میں کئی ایک رسالے لکھے جاچکے ہیں، جیسے شیخ الصابونی، انہوں نے بھی اس حدیث سے دلیل لینے میں حافظ ابن کثیر کی متابعت کی ہے اور انہوں نے ’’ان کی مختصر‘‘ سے اسے دو جگہوں (۱/۴۲۱، ۵۲۳) میں ذکر کیا ہے، اس کے متعلق انہوں نے پابندی کی ہے کہ وہ اس میں صرف صحیح حدیث ہی لائیں گے۔
رہے اس دور کے اعلیٰ درجے کے بدعتی اور جہمی! تو ان میں سے بعض نے اس حدیث کو ضعیف قرار دینے کے حوالے سے اعلان کیا ہے اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: ’’أین اللہ‘‘ (اللہ کہاں ہے؟) اور اس لڑکی کے جواب ’’فی السماء‘‘ ’’آسمان پر‘‘ کے صحیح ہونے کا انکار کیا ہے، ان کے سربراہ شیخ الکوثری اور اس کے مقلدین ہیں، میں نے اپنی کتاب ’’مختصر العلو‘‘ (ص۸۲) میں اس کی تردید کی ہے، اب یہاں اس کے دہرانے کی ضرورت نہیں، اور جب تک اس کے ابوہریرہ، ابوجحیفہ اور ابن عباس سے گزشتہ شواہد جمع کرنا میرے لیے میسر نہ تھا اس سے پہلے صرف معاویہ کی اس روایت کی ہی تردید تھی۔ پھر میرے بعض بھائیوں نے ’’اسد الغابہ‘‘ اور ’’الاصابہ‘‘ میں ابن شاہین کی سند سے عکاشہ الغنوی کی روایت سے پانچویں حدیث پر مطلع کیا اور اس کی سند حسن ہے۔
پھر میں نے ’’تلخیص ابن حجر‘‘ (۳/۲۲۳) میں یحییٰ بن عبد الرحمن بن حاطب سے مروی چھٹی حدیث دیکھی، وہ راوی ثقہ ہے جبکہ روایت مرسل ہے، امام ابو احمد العسال نے اسامہ بن زید کے طریق سے ’’السنۃ‘‘ میں روایت کیا ہے اور دو حدیثوں میں ہے: ’’أین اللہ؟‘‘ اس (لڑکی) نے کہا: ’’آسمان پر۔‘‘
پس ان علمی حقائق، جن کے بلند پایہ علماء معترف ہیں، کے بہت بڑے منکرین کے بارے میں اس کے علاوہ کیا کہا جائے کہ ﴿فَاِنَّہَا لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَ لٰکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ﴾ (الحج:۴۶) ’’بے شک آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں لیکن وہ دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔‘‘ اور یہ کہ امت کی تفریق سے متعلق روایت کے بارے میں حدیث معاویہ رضی اللہ عنہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ذکر کیا جائے:
’’عنقریب میری امت میں کچھ ایسے لوگ ظاہر ہوں گے کہ خواہشات ان میں اس طرح سرایت کرجائیں گی جس طرح کتے کے دیوانے ہوجانے والی بیماری اس کے ساتھ والے کو بھی ہوجاتی ہے، اور وہ اس کی ہر رگ اور ہر جوڑ میں داخل ہوجاتی ہے۔‘‘ ’’صحیح الترغیب‘‘ (۱/۹۷/۴۸)
|