کے رسول! آپ تکبیر اور قراءت کے درمیان اپنے خاموش رہنے کے متعلق بتائیں کہ آپ (اس وقفے میں) کیا پڑھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’میں یہ دعا پڑھتا ہوں: ’’اللھم باعد بینی و بین خطایای…‘‘ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاتحہ کے بعد اس (فاتحہ) کی مقدار کے برابر سکتہ فرماتے تو وہ آپ سے اس کے متعلق سوال کرتے، جیسا کہ انہوں نے اس (سکتے) کے متعلق آپ سے سوال کیا تھا۔
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’تمام المنۃ‘‘ (۱۸۷۔۱۸۸) میں فرمایا:
بے شک یہ مذکورہ سکتہ دین میں بدعت ہے، جبکہ وہ سید المرسلین سے مطلق طور پر وارد نہیں، آپ سے دو سکتے وارد ہیں، ان میں سے ایک تکبیر تحریمہ کے بعد دعائے استفتاح ’’اللھم باعد بینی‘‘ کے لیے، اور دوسرا سکتہ سمرہ بن جندب سے روایت کیا گیا۔ راویوں نے اس کی تعیین میں اختلاف کیا ہے، ان میں سے بعض نے کہا: وہ پوری قراءت سے فارغ ہونے کے بعد ہے، اور یہی درست ہے جیسا کہ میں نے اسے ’’التعلیقات الجیاد‘‘ وغیرہ[1] میں بیان کیا، اور ابن القیم کے ’’رسالۃ الصلاۃ‘‘ کا مطالعہ فرمائیں۔
بنا بریں یہ کہ یہ حدیث میرے نزدیک انقطاع کی وجہ سے معلل ہے! کیونکہ یہ حسن کی سمرہ کے حوالے سے روایت میں سے ہے، اور اگر اس نے فی الجملہ اس سے سنا ہے، تو وہ مدلس ہے، اس نے عن سے روایت کیا ہے، اور اس نے اس سے اس حدیث کے سماع کے متعلق صراحت نہیں کی، لہٰذا اس کا ضعف ثابت ہوا۔
پھر یہ کہ اس میں تصریح نہیں کہ وہ سکتہ اس کے مطابق طویل تھا، الشافعیہ کے لیے اس میں بالکل کوئی دلیل نہیں، غور کریں۔
رہا وہ جسے شوکانی نے ’’السیل الجرار‘‘ (۱/۲۲۵) میں ذکر کیا:
کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سورہ فاتحہ کی قراءت سے فارغ ہو کر ایک طویل سکتہ کیا کرتے تھے اور پھر سورت پڑھتے تھے، حدیث کی روایات میں سے کسی میں طویل (سکتے) کا اضافہ نہیں …
اور ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’الارواء‘‘ (۲/۲۸۳) میں فرمایا:
بے شک جہری نماز میں امام کے پیچھے قراءت فطرت کے منافی ہے، کیونکہ یہ عقل مندی نہیں کہ امام بلند آواز سے قراءت کرے، اور مقتدی قراءت میں مشغول ہو کر اس کی طرف دھیان اور توجہ نہ کرے،[2] شوافع وغیرہم اس سے آگاہ ہوئے، تو انہوں نے امام کے سکتوں میں قراءت پڑھنے کو کہا، اور جب انہوں نے دیکھا کہ یہ ممکن نہیں
|