کہ ابن حجر نے ’’الزواجر‘‘ میں اور ان سے پہلے علامہ ابن قیم نے ’’زاد المعاد‘‘ میں کیا ہے اور سلف اور بہت سے اہل الحدیث نے بھی اس سے دھوکا کھایا اور انہوں نے اپنی کتب، رسائل اور اپنے محاضرات (لیکچرز، دروس وغیرہ) میں اس سے استدلال کیا۔
اور ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’الضعیفۃ‘‘ (۱/ ۳۹۵-۳۹۶) میں حدیث رقم (۲۲۵) کے تحت بیان کیا:
رہا ان (قبروں) پر چراغاں کرنے والوں پر لعنت کرنا، تو ہم نے احادیث میں ایسی کوئی روایت نہیں پائی جو اس کے حق میں گواہی دیتی ہو، پس یہ ضعیف حدیث سے ہے، اگرچہ ہمارے بعض سلفی بھائیوں نے بعض علاقوں میں اس سے استدلال کیا ہے، میری انہیں نصیحت ہے کہ وہ اس کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت نہ کریں، کیونکہ وہ صحیح نہیں، اور یہ کہ وہ قبروں پر چراغاں کرنے کی ممانعت پر شریعت کے عمومی دلائل سے استدلال کریں، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
(( کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ، وَکُلُّ ضَلَالَۃٍ فِی النَّارِ۔))
’’ہر بدعت گمراہی ہے، اور ہر گمراہی کا انجام جہنم ہے۔‘‘
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مال ضائع کرنے کی ممانعت اور کافروں سے مشابہت اختیار کرنے کی ممانعت کی مثال اور اسی طرح کے دیگر فرامین۔
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’المشکاۃ‘‘ (۱/ ۲۳۰) میں حدیث رقم (۷۴۰)[1] میں فرمایا:
’’قبروں پر چراغاں کرنا وثنیت ہے، دین اسلام اسے پسند نہیں کرتا، جیسا کہ میں نے اسے ’’أحکام الجنائز و بدعھا‘‘ میں بیان کیا ہے۔‘‘
۲۲۱: اہل مدینہ کا مسجد نبوی میں داخل ہوتے وقت اور وہاں سے نکلتے وقت قبر نبوی کی زیارت کا قصد کرنا:
’’الرد علی الاخنائی‘‘ (۲۴، ۱۵۰-۱۵۱، ۱۵۶، ۲۱۷، ۲۱۸)، ’’الشفاء فی حقوق المصطفیٰ‘‘ للقاضی عیاض (۲/ ۷۹)، (المسألۃ ۱۲۵- فقرہ ۱۰)[2]
احکام الجنائز (۳۳/۲۲۱) تلخیص الجنائز (۱۱۰/ ۲۲۱)۔
|