اس کے متعلق اثر پہنچا تو انہوں نے اسے جائز قرار دیا۔
میں کہتا ہوں: لیکن وہ اثر (روایت) جس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ باطل ہے، صحیح نہیں، ابن الجوزی نے اسے ’’موضوعات‘‘ میں روایت کیا ہے، اور انہوں نے فرمایا: ’’یہ روایت بلاشک موضوع ہے۔‘‘ اور حافظ زیلعی نے اسے ’’نصب الرایۃ‘‘ (۲۷۳) میں اسے ثابت رکھا ہے، پس وہ قابل حجت دلیل نہیں…‘‘
پھر ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے اس پر ایک طویل فصل قائم کی، وہ چوتھی فصل ہے: ’’شبھات و الجواب علیھا‘‘ انہوں نے اس میں بدعتی وسیلے کو جائز قرار دینے والوں کا (ص۵۵) سے آخر کتاب تک حدیث کے طور پر اور فقہی طور پر مناقشہ اور تجزیہ کیا ہے، پس جو شخص اس سے واقف ہونا چاہے تو وہ اس کی طرف رجوع کرے، اس میں حق کے ہر متلاشی کے لیے قیمتی اور مفید بحثیں ہیں۔
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’التوسل‘‘ (ص۱۰۱۔۱۰۲) میں ’’تیسرے شبہے‘‘ کے تحت بیان کیا:
’’التوسل‘‘ میں ضعیف احادیث:
بدعتی توسل کو جائز قرار دینے والے بہت سی احادیث سے دلیل لیتے ہیں، جب ہم نے ان پر غور و فکر کیا تو ہم انہیں دو انواع کے تحت پاتے ہیں[1] :
پہلي قسم:… وہ جس کی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت ثابت ہو، لیکن وہ ان کی مراد پر دلالت نہیں کرتی، اور وہ ان کی رائے کی بھی تائید نہیں کرتی جیسا کہ نا بینے شخص کی روایت ہے …[2]
دوسري قسم:… وہ جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت ثابت نہیں، اس نوع کی بعض احادیث ان کی مراد پر دلالت کرتی ہیں اور بعض دلالت نہیں کرتیں، اور یہ احادیث وہ ہیں جو زیادہ تر صحیح نہیں۔[3]
|