الجامعۃ‘‘ میں مکمل طور پر ثابت کیا ہے…
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’الأجوبۃ النافعۃ‘‘ (ص۴۶۔۵۰) میں ’’سنۃ الجمعۃ القبلیۃ لا تثبت‘‘ کے عنوان کے تحت بیان کیا:
’’…سنت صحیحہ میں اس سنت کی کوئی اصل نہیں اور نہ ان کی اس میں کوئی گنجائش ہے، میں نے گزشتہ احادیث [1] سے جان لیا کہ سورج ڈھلنا، اذان، خطبہ اور نماز متصل سلسلہ ہے۔ ان کی کڑیاں ایک دوسری سے جڑی ہوئی ہیں، تو پھر ان سنتوں کا وقت کہاں سے آگیا؟ اور اسی معنی کی طرف حافظ عراقی کا کلام اشارہ کرتا ہے:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول نہیں کہ آپ جمعہ سے پہلے نماز پڑھا کرتے تھے، کیونکہ آپ اس کے لیے تشریف لاتے، تو آپ کے سامنے اذان دی جاتی تھی، پھر آپ خطبہ ارشاد فرماتے تھے۔‘‘[2]
بعض علماء احناف نے اس معنی کو اچھی طرح سمجھ لیا جس وقت انہوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ جمعہ کے دن اذان اوّل کے ساتھ ہی ترک بیع اور جمعہ کے لیے سعی واجب ہوجاتی ہے اور وہ (اذان اوّل) وہ ہے جو خطیب کے منبر پر چڑھنے سے پہلے ہوتی ہے اور انہوں نے کہا: کہ وہ مذہب (حنفی) میں صحیح ہے، حالانکہ انھیں معلوم ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اس آیت ﴿اِِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ وَذَرُوا الْبَیْعَ﴾ (الجمعۃ:۹) (جب جمعہ کے دن نماز کے لیے بلایا جائے تو تیزی سے اللہ کے ذکر کی طرف آؤ اور بیع چھوڑ دو۔) کے نزول کے وقت نہ تھی اور یہ تو اس اذان کے بارے میں نازل ہوئی جو خطیب کے منبر پر چڑھنے کے وقت ہوتی ہے جیسا کہ بیان ہوچکا ہے، انہوں نے یہ سب کتب السنۃ میں اس کی شہرت کی وجہ سے جانا اور انہوں نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا۔ بلکہ انہوں نے ان سے طحاوی کے اس قول کو ضعیف قرار دیا جو اس سے موافق تھا جو سنت میں ہے، انہوں (امام طحاوی) نے کہا: وہ اذان جس پر ترک بیع واجب ہوتی ہے، وہ (اذان) وہ ہے جو خطیب کے منبر پر چڑھنے کے وقت دی جاتی ہے، انہوں نے کہا:
’’اس لیے کہ اگر وجوب سعی (اذان سن کر کاروبار چھوڑ کر نماز کے لیے آنے) کا لحاظ رکھا جائے تو پھر جمعہ سے پہلے کی سنتوں کا پڑھنا ممکن نہ ہوگا…‘‘[3]
یہ اعتراف اس بات کو متضمن ہے کہ وہ پہلی مزعومہ سنتیں دور نبوی میں معروف نہ تھیں اور یہ کہ صحابہ انھیں نہیں
|