Maktaba Wahhabi

636 - 756
ضمن سے ہے جو شرعاً معروف ہے نہ عقلاً، اگر معاملہ اسی طرح ہو تو پھر کافروں کو سب سے کم عذاب ہو، جنھیں ایسے قبرستان میں دفن کیا جاتا ہے جو باغات کی طرح ہوتے ہیں۔ کیونکہ وہاں کثرت سے نباتات اور درخت اگائے جاتے ہیں، جو گرمی سردی میں سرسبز و شاداب رہتے ہیں۔ جو بیان ہوا اس میں یہ اضافہ کیا جائے کہ بعض علماء جیسے سیوطی انھوں نے ذکر کیا کہ عذاب میں تخفیف میں گیلے پن کی تاثیر کا سبب: اس (شاخ) کا اللہ کی تسبیح کرنا ہے، انھوں نے کہا: پس جب لکڑی سے گیلاپن ختم ہوجائے گا اور وہ خشک ہوجائے گی اس کی تسبیح ختم ہوجائے گی! بے شک یہ تعلیل و تعبیر اللہ تعالیٰ کے فرمان: ﴿وَ اِنْ مِّنْ شَیْئٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ وَ لٰکِنْ لَّا تَفْقَہُوْنَ تَسْبِیْحَہُمْ﴾ (الاسراء:۴۴) (ہر چیز اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح بیان کرتی ہے لیکن تم ان کی تسبیح نہیں سمجھتے۔) کے خلاف ہے۔ ب: ابن عباس ہی کی حدیث جو اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ راز اس گیلے پن میں نہیں، یا یہ زیادہ مناسب ہے کہ عذاب کی تخفیف میں وہ سبب نہیں اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: ’’پھر آپ نے ایک شاخ منگوائی اور اس کو دو حصوں میں پھاڑ دیا۔‘‘ یعنی طول میں، یہ معلوم ہے کہ اس کا درمیان سے پھاڑنا اس پھٹنے سے تازگی (گیلے پن) کے ختم ہوجانے اور اس کے تیزی کے ساتھ خشک ہوجانے کا سبب ہے، تو اس طرح مدت تخفیف اس سے زیادہ کم ہوگی اگر اسے پھاڑا نہ جائے، اگر عذاب میں تخفیف کی یہ علت ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو پھاڑے بغیر باقی رکھتے اور آپ ہر قبر پر ایک شاخ یا کم از کم نصف شاخ رکھ دیتے، جب آپ نے یہ کام نہ کیا تو اس نے اس پر دلالت کیا کہ گیلاپن اس تخفیف عذاب کا سبب نہیں اور اس کا تعین ہوا کہ وہ اس تخفیف کی مدت کی علامت ہے جس کی اللہ نے اجازت دی اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت قبول فرمائی، جیسا کہ جابر کی روایت میں اس کی صراحت ہے، اسی لیے تعیین سبب میں دونوں حدیثیں متفق ہیں، اگر ان دونوں کے اختلاف کو واقعہ و تعدد میں محمول کیا جائے۔ اس پر غور و فکر کریں، یہ وہ چیز ہے جس نے میرے دل میں اثر کیا اور میں نے اس پر دلالت و صراحت والی کوئی چیز نہیں دیکھی یا علماء میں سے کسی نے اس طرف اشارہ کیا ہو، (ایسی کوئی بات نہیں)، اگر وہ درست ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، اور اگر غلط ہے تو وہ میری طرف سے ہے اور میں اس سے ہر اس کام سے مغفرت طلب کرتا ہوں جو اسے ناپسند ہے۔ ج: اگر وہ تری اور گیلاپن ہی مقصود بالذات ہوتا تو سلف صالحین اسے سمجھتے اور وہ اس کے تقاضے کے مطابق عمل کرتے اور وہ قبروں کی زیارت کے وقت ان پر شاخیں وغیرہ رکھتے اور اگر وہ کرتے تو ان کے حوالے سے یہ کام مشہور ہوجاتا ، پھر ثقہ راوی اسے ہم تک نقل کرتے۔ کیونکہ وہ ایسے امور سے ہے جو توجہ کا مرکز بنتے ہیں
Flag Counter