اور اس کے اسباب اسے نقل کرنے کا تقاضا کرتے ہیں، تو جب وہ منقول نہیں تو اس نے اس پر دلالت کیا کہ وہ کام ہوا ہی نہیں، اور اس کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کرنا ایک بدعت ہے، مراد ثابت ہوگئی۔
اور جب یہ واضح ہوگیا تو تب اس کمزور قیاس کے بطلان کو سمجھنا آسان ہوگیا، جسے سیوطی نے ’’شرح الصدور‘‘ میں ایسے شخص سے نقل کیا جس کا نام نہیں لیا:
’’جب شاخ کی تسبیح کے ذریعے ان دونوں کے عذاب میں تخفیف کردی گئی تو پھر مومن کے قرآن پڑھنے سے کس طرح نہ ہوگی؟ انھوں نے کہا: قبروں کے پاس درخت لگانے کے بارے میں یہ حدیث بنیاد ہے۔‘‘
میں کہتا ہوں: ’’پہلے تخت قائم کرو اور پھر اس پر نقش نگاری کرو۔‘‘
’’کیا سایہ اور ٹیڑھی لکڑی سیدھی کی جاسکتی ہے؟‘‘ اگر یہ قیاس صحیح ہوتا توسلف اس کی طرف آگے بڑھتے، کیونکہ وہ ہم سے زیادہ خیر کے متلاشی اور اس کے لیے کوشاں رہتے تھے۔
جو بیان ہوا اس نے اس پر دلالت کی کہ قبر پر شاخ رکھنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے، یہ کہ دونوں قبروں سے عذاب کی تخفیف میں جو راز ہے وہ اس لکڑی/ شاخ کی تری اور گیلے پن میں نہیں، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان دونوں کے لیے شفاعت و دعا میں ہے اور یہ اس ضمن سے ہے جس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رفیق اعلیٰ کی طرف انتقال کے بعد دوسری مرتبہ وقوع ممکن نہیں اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی اور کے لیے ممکن ہیـ؟ کیونکہ عذاب قبر پر مطلع ہونا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات میں سے ہے اور وہ اس غیب سے ہے جس پر صرف رسول ہی مطلع ہوئے ہیں، جیسا کہ قرآن میں بیان ہوا ہے:
﴿عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیْبِہٖ اَحَدًا اِِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ﴾ (الجن:۲۶تا۲۷)
’’وہ غیب جاننے والا ہے، وہ اپنے غیب کو کسی پر ظاہر نہیں کرتا، مگر جس رسول کو وہ پسند کرلے۔‘‘
اور جان لیجیے کہ یہ اس کے منافی نہیں جو ہم نے بیان کیا جسے سیوطی نے ’’شرح الصدور‘‘ (۱۳۱) میں نقل کیا ہے:
’’ابن عساکر نے حماد بن سلمہ کے طریق سے نقل کیا، انھوں نے قتادہ سے کہ ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ بیان کیا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک قبر کے پاس سے گزرے جبکہ اس قبر والے کو عذاب دیا جارہا تھا، آپ نے ایک شاخ لی اور اس کو قبر پر گاڑ دیا اور فرمایا:
’’امید ہے کہ جب تک یہ تر رہے گی اس سے تکلیف دور کردی جائے گی۔‘‘
ابوبرزہ وصیت کیا کرتے تھے، جب میں فوت ہوجاؤں تو میری قبر میں میرے ساتھ دو شاخیں رکھنا، راوی
|