نے بیان کیا: انھوں نے کرمان اور قومس کے درمیان ایک بے آب و گیاہ چٹیل میدان میں وفات پائی، انھوں نے کہا: وہ کہا کرتے تھے کہ ہم نے ان کی قبر میں دو شاخیں رکھیں، یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں ہم وہ (دو شاخیں) نہیں پاتے، وہ اس اثنا میں تھے کہ سجستان کی طرف سے اچانک ایک قافلہ ان کے پاس آیا، انھوں نے ان کے پاس کھجور کی شاخ دیکھی، انھوں نے دو شاخیں لیں اور انھیں ان کے ساتھ ان کی قبر میں رکھ دیا۔
ابن سعد نے مورق سے نقل کیا، انھوں نے کہا: بریدہ نے وصیت کی کہ ان کی قبر میں دو شاخیں رکھی جائیں۔‘‘
میں کہتا ہوں: عدم منافات کی وجہ کہ ان دونوں آثار میں … فرض کریں ان دونوں کے ثبوت کو ایک ساتھ تسلیم کرلیں … قبروں کی زیارت کے وقت شاخ رکھنے کی مشروعیت نہیں، جس کا ہم نے اس کے مشکوک ہونے اور اس پر سلف کے عدم عمل کا دعویٰ کیا، ان دونوں میں جو غایت ہے: میت کے ساتھ اس کی قبر میں دو شاخیں رکھنا، یہ ایک دوسرا مسئلہ ہے، اگرچہ عدم مشروعیت کے حوالے سے یہ پہلے کی طرح ہے، کیونکہ وہ حدیث جسے ابوبرزہ اور ان کے علاوہ کسی صحابی نے روایت کیا ہے، وہ اس پر دلالت نہیں کرتی، خاص طور پر وہ حدیث جس میں ایک شاخ رکھنے کا ذکر ہے، جبکہ انھوں نے اپنی قبر میں دو شاخیں رکھنے کی وصیت کی تھی۔
نیز یہ کہ اس اثر کی اسناد صحیح نہیں، الخطیب نے ’’تاریخ بغداد‘‘ (۱/۱۸۲۔۱۸۳) میں اسے نقل کیا اور ان کے طریق سے ابن عساکر نے اسے ’’تاریخ دمشق‘‘ میں نضلہ بن عبید بن ابو برزہ اسلمی کے سوانح حیات کے آخر میں اس سند سے نقل کیا، عن الشاہ بن عمار، انھوں نے کہا: ابوصالح سلیمان بن صالح لیثی نے بیان کیا، انھوں نے کہا: نضر بن المنذر بن ثعلبہ العبدی نے حماد بن سلمہ کے حوالے سے ہمیں بیان کیا۔
میں کہتا ہوں: یہ اسناد ضعیف ہے، اس کی دو علّتیں ہیں:
۱: الشاہ اور النضر کا مجہول ہونا، میں نے ان دونوں کی سوانح حیات نہیں دیکھی۔
۲: قتادہ کا عنعنہ، کیونکہ انھوں نے ان کی ابوبرزہ سے روایت ذکر نہیں کی، پھر یہ کہ وہ تدلیس کے ساتھ مذکور ہے، اس کے عنعنہ سے اس کی اس طرح کی اسناد کے متعلق اندیشہ رہتا ہے۔
جہاں تک بریدہ کی وصیت کا تعلق ہے تو وہ ان سے ثابت ہے، ابن سعد نے ’’الطبقات‘‘ (ج۷ ق۱ ص ۴) میں فرمایا: ’’عفان بن مسلم نے ہمیں خبر دی، انھوں نے کہا: حماد بن سلمہ نے ہمیں بیان کیا، انھوں نے کہا: عاصم الاحول نے ہمیں خبر دی، مورق نے کہا: بریدہ اسلمی نے وصیت کی کہ ان کی قبر میں دو شاخیں رکھی جائیں، وہ خراسان کے قریب فوت ہوئے، شاخیں گدھے کے گٹھے سے ملیں۔‘‘
یہ سند صحیح ہے، بخاری (۳/۱۷۳) نے جزم کے ساتھ اسی کی تعلیق کی ہے۔
|