Maktaba Wahhabi

639 - 756
حافظ نے اپنی شرح میں فرمایا: ’’گویا کہ بریدہ نے اس حدیث کو اس کے عموم پر محمول کیا اور اسے ان دو آدمیوں کے ساتھ خاص نہ سمجھا۔ ابن رشید نے بیان کیا: بخاری کے تصرف سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ان دونوں کے ساتھ خاص تھا، اسی لیے انھوں نے ابن عمر کے اس فرمان کے ذریعے اس کی علمی گرفت کی ہے: ’’اس کا عمل اسے سایہ کرتا ہے۔‘‘ میں کہتا ہوں: اس میں کوئی شک نہیں کہ بخاری نے جو موقف اختیار کیا ہے ان کے بیان کردہ بیان کے مطابق درست ہے اور بریدہ کی رائے میں کوئی دلیل نہیں، کیونکہ وہ ایک رائے ہے، حدیث اس پر دلالت نہیں کرتی، حتیٰ کہ خواہ وہ عام ہو، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شاخ کو قبر میں نہیں رکھا، بلکہ اس کے اوپر رکھا ہے۔ جیسا کہ بیان ہوا ہے۔ ’’بہترین طریقہ محمد کا طریقہ ہے۔‘‘ ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے حدیث رقم (۲۸۳)[1] کے تحت ’’الإرواء‘‘ (۱/۳۱۳۔۳۱۴) کے حوالے سے بیان کیا: فائدہ…: صحیح مسلم [2] (۸/۲۳۵) میں جابر کی طویل روایت میں تخفیف مذکور کا اس حدیث میں بیان آیا ہے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے: ’’میں دو قبروں کے پاس سے گزرا، ان دونوں کو عذاب ہورہا ہے، پس میں نے اپنی شفاعت کے ذریعے چاہا کہ جب تک یہ دونوں شاخیں تر رہیں ان دونوں سے عذاب دور کردیا جائے۔‘‘ یہ اس پر نص ہے کہ عذاب میں تخفیف کا سبب ان دونوں کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش اور دعا ہے، کیونکہ شاخوں کی تری تو ان سے عذاب کی دوری کی مدت کی علامت ہے نہ کہ سبب، اسی سے وہ بدعت ظاہر ہوتی ہے جو ہمارے ملک شام وغیرہ کے علاقوں میں بہت سے لوگ کرتے ہیں، اسی طرح قبروں کی زیارت کے وقت قبروں پر پھول وغیرہ رکھنا بھی اسی زمرے میں آتا ہے اور یہ ایسا کام ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا نہ آپ کے بعد آپ کے اصحاب نے، اس میں اسراف اور مال کا ضیاع ہے۔ واللّٰہ المستعان۔ ہمارے شیخ نے ’’مختصر صحیح البخاری‘‘ (۱/۳۹۹) میں اکثر رقم (۲۷۴)[3] پر تعلیقاً بیان کیا اور اس (اثر) کی نص یہ ہے: ’’بریدہ اسلمی نے وصیت کی کہ ان کی قبر میں دو شاخیں رکھی جائیں۔‘‘ ابن سعد نے
Flag Counter