صحیح سند سے اسے موصول روایت کیا ہے، جیسا کہ ’’احکام الجنائز‘‘ (ص ۲۵۷۔۲۵۸) میں ہے اور اس میں بیان ہے کہ اس میں قبر پر شاخ رکھنے کے بارے میں کوئی دلیل نہیں۔
ہمارے شیخ البانی رحمہ اللہ نے ’’المشکاۃ‘‘[1] (۱/۱۱۰) میں حدیث رقم (۳۳۸) کے تحت بیان کیا:
بہت سے لوگوں کو وہم گزرا ہے کہ (عذاب میں) کمی ان دونوں شاخوں کی تری کی وجہ سے ہوئی تھی، یہ صحیح نہیں، اگر وہ صحیح ہوتا تو پھر شاخ کو دو حصوں میں کیوں پھاڑا، کیونکہ ایسا کرنے سے تو وہ جلد خشک ہوجاتیں، جیسا کہ بالکل واضح ہے، صحیح یہ ہے کہ تخفیفِ عذاب کا سبب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان دونوں کے لیے سفارش اور دعا ہے، یہ کہ اللہ نے ان کے خشک ہونے تک کے لیے آپ کی سفارش قبول فرمائی، تری ایک علامت ہے سبب نہیں، صحیح مسلم (۸/۲۳۵) میں طویل روایت اس کی گواہی دیتی ہے:
’’میں دو قبروں کے پاس سے گزرا، ان کو عذاب ہورہا تھا، میں نے اپنی سفارش کے ذریعے پسند کیا کہ جب تک وہ دونوں شاخیں تررہیں ان سے عذاب دور کردیا جائے۔‘‘
اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے معروف نہیں کہ آپ قبروں کی زیارت کے وقت ایسے کیا کرتے تھے اور نہ صحابہ سے ہی ثابت ہے اور نہ سلف میں سے کسی ایک سے یہ عمل ثابت ہے، بلکہ امام خطابی نے اس کا انکار کیا ہے جسے آج لوگ قبروں پر سبز شاخیں وغیرہ رکھ کر کرتے ہیں اور انھوں نے فرمایا: اس کی کوئی اصل نہیں، میں نے اس مسئلے
پر اپنی کتاب ’’أحکام الجنائز وبدعہا‘‘ میں تفصیل سے ذکر کیا ہے اور ’’ترمذی‘‘ (۱/۱۰۳) پر احمد شاکر کی تعلیق دیکھیں۔
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’مختصر صحیح مسلم‘‘ (ص۲۰۴۔ ط: ابن عفان/ المکتبۃ الاسلامیۃ) کی حدیث رقم (۱۵۳۷) کے تحت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: ’’…فَأَحْبَبْتُ بِشَفَاعَتِیْ…‘‘ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا:
’’میری دعا کے ذریعے‘‘ میں کہتا ہوں: یہ اس میں نص ہے کہ دونوں قبروں کے عذاب سے تخفیف محض آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی وجہ سے تھی، ان دو شاخوں کے باعث نہ تھی، جیسا کہ بہت سے لوگ گمان کرتے ہیں اور وہ دو شاخیں تو بس اس مدت تخفیف کی علامت تھیں کہ جب تک یہ تر رہیں گی ان کے عذاب میں تخفیف رہے گی۔
اور اس کی اس سے تاکید واضح ہوتی ہے کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے، اسی لیے عہد اوّل میں قبروں کی زیارت کے وقت اس پر عمل نہیں ہوا۔
آج جو لوگ کر رہے ہیں وہ بدعت ہے، اسے چھوڑنا چاہیے، خاص طور پر کہ اس کی بہت سی صورتیں بن گئی
|