بہت زیادہ اور بہت برے ہوتے ہیں، اور یہ اس رات زیادہ چراغاں کرنے کی وجہ سے ہوتا ہے، اللہ ہم پر اور آپ پر رحم فرمائے۔ ان بدعات کی طرف دیکھیں وہ کس طرح ایک دوسری کو کھینچتی اور ملاتی ہیں حتیٰ کہ وہ محرمات تک پہنچ جاتی ہیں۔‘‘
اور انہوں نے ابوبکر طرطوشی رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہوئے ’’الباعث علی إنکار البدع والحوادث‘‘ (ص۲۲۔۲۳) میں بیان کیا:
’’اور اس میں سے وہ جسے بدعتیوں نے ایجاد کیا دیندار لوگوں نے اس پر آمادہ کیا اور اسے خوبصورت کرکے پیش کیا اور اس میں انہوں نے مجوسیوں کی روش اپنائی اور انہوں نے اپنے دین کو کھیل تماشا بنالیا، نصف شعبان کی شب چراغاں کرنا، اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ بھی صحیح ثابت نہیں اور اس رات میں نماز پڑھنے اور چراغاں کرنے کے بارے میں کسی سچے راوی نے ذکر نہیں کیا۔ شریعت محمدیہ کا مذاق اڑانے والے کسی شخص نے اسے ایجاد کیا جو مجوسیت کا شوق رکھتا ہے، کیونکہ آگ ان کا معبود ہے اور اس کا آغاز برامکہ کے زمانے میں ہوا، انہوں نے اسے دین اسلام میں داخل کردیا جس کے ذریعے وہ ردی چیز پر ملمع سازی کرتے ہیں، اور وہ ہے ان کا شعبان میں چراغاں کرنا گویا کہ وہ ایمان کی راہ ہے، اور ان کا مقصود آگ کی پوجا کرنا ہے، اور اپنے دین (آتش پرستی) کا نفاذ ہے جبکہ وہ سب سے گھٹیا دین ہے، حتیٰ کہ جب مسلمان نماز پڑھتے اور رکوع و سجود کرتے ہیں تو وہ اس آگ کی طرف ہوتا ہے جسے وہ جلاتے ہیں اور اس پر زمانہ بیت چکا ہے، اس میں تمام علاقوں نے بغداد کی پیروی کی ہے، اس کے ساتھ ساتھ اس رات میں خواتین و حضرات اکٹھے ہوتے ہیں اور ان کا اختلاط ہوتا ہے، لہٰذا انھیں روکنا حکمران پر واجب ہے، اور عالم پر واجب ہے کہ وہ ان کی زجر و توبیخ کرے، شعبان کا شرف یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں روزہ رکھا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پورا شعبان یا اس کا زیادہ تر حصہ روزہ رکھنا صحیح احادیث سے ثابت ہے۔‘‘
پھر ابن ابی شامہ (ص۲۵) نے بیان کیا:
’’یہ سارا فساد گمراہ درویشوں کی پیداوار ہے، اس عمل کی کیا کیفیت ہوگی جو نافرمانوں کے فساد سے واقع ہوتا ہے، اور اس رات کو ظاہری و باطنی کئی انواع کے معاصی سے بیدار رکھنا سب خلاف معمول چراغاں کرنے کے باعث ہے جسے قربت کا سبب سمجھا جاتا ہے، وہ تو اللہ تعالیٰ کی معاصی پر، منکر کے اظہار و غلبے اور اہل بدعات کے شعائر کی تقویت پر اعانت ہے، شریعت میں کسی جگہ کی اصل ضرورت سے زیادہ چراغاں کرنے کے استحباب کے بارے میں کوئی ثبوت اور دلیل نہیں اور حاجی عرفہ کے دن
|