جس پر جھوٹ یا غفلت یا مجہول الحال ہونے کی جرح کی گئی ہے، بعض مسلمان اس کے متعلق یہ کہتے ہیں، تو پھر ہمارے نزدیک اس کی بات کرنا، اس کی تصدیق کرنا اور اس سے کوئی چیز اخذ کرنا حلال نہیں۔‘‘
میں نے کہا: حافظ ابن رجب نے ’’شرح الترمذی‘‘ (ق۱۱۲/۲) میں فرمایا:
’’مسلم نے اپنی کتاب (یعنی: ’’الصحیح‘‘) کے مقدمے میں جو ذکر کیا اس کا ظاہری مفہوم تو یہی تقاضا کرتا ہے کہ ترغیب و ترہیب کی احادیث بھی صرف اسی شخص سے روایت کی جائیں جس سے احکام کی احادیث روایت کی جاتی ہیں۔‘‘
میں نے کہا: یہی ہے جسے اللہ نے دین بنایا ہے اور میں بھی اسی طرف لوگوں کو دعوت دیتا ہوں کہ ضعیف حدیث پر مطلق طورپر عمل نہیں کیا جائے گا، فضائل میں نہ مستحبات میں اور نہ ہی ان دونوں کے علاوہ میں۔
یہ اس لیے کہ ضعیف حدیث ظن مرجوح کا فائدہ دیتی ہے، میری معلومات کے مطابق اس کے متعلق علماء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں، جب اسی طرح ہے تو پھر اس پر عمل کے جواز کے بارے میں کس طرح کہا جاسکتا ہے، اللہ عزوجل نے اپنی کتاب میں کئی آیات میں اس کی مذمت کی ہے، فرمایا:
﴿وَاِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْئًا﴾ (النجم:۲۸) ’’بے شک ظن و گمان حق بات کے مقابلے میں کچھ کام نہیں آتا۔‘‘ نیز فرمایا:
﴿اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ إِلَّا الظَّنَّ﴾ (النجم:۲۳) ’’وہ تو محض ظن و گمان ہی کی پیروی کرتے ہیں۔‘‘ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ إِیَّاکُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَکْذَبُ الْحَدِیْثِ‘‘[1] ’’ظن و گمان سے بچو، کیونکہ ظن و گمان سب سے بڑا جھوٹ ہے۔‘‘
جان لیجیے کہ میں نے جو یہ موقف اختیار کیا ہے اس کے لیے مخالفین کے پاس کتاب و سنت سے کوئی دلیل نہیں، متاخرین میں سے کسی عالم نے اپنی کتاب ’’الأجوبۃ الفاضلۃ‘‘ میں ان (مخالفین) کی مدد کی ہے، اس (عالم) نے اس مسئلے کے لیے (۳۹۔۵۹) ایک فصل مقرر کی ہے، اس کے باوجود وہ (عالم) ان کے لیے قابل حجت ایک دلیل بھی ذکر نہیں کرسکے! البتہ بعض عبارتیں مستثنیٰ ہیں، جنھیں انہوں نے بعض سے نقل کیا ہے، ان کی بحث و نزاع کے میدان میں کوئی قیمت نہیں، اس کے علاوہ وہ ایک دوسرے سے متعارض بھی ہیں، جیسا کہ ابن ہمام سے ص۴۱ پر نقل کیا ہے:
’’استحباب ضعیف روایت سے ثابت ہوتا ہے موضوع سے نہیں۔‘‘
پھر (۵۵۔۵۶ پر) محقق جلال الدین الدوانی سے نقل کیا کہ انہوں نے کہا:
’’انہوں نے اس پر اتفاق کیا کہ ضعیف حدیث سے شرعی پانچ احکام ثابت نہیں ہوتے اور استحباب بھی
|