انہی میں سے ہے۔‘‘
میں نے کہا: یہی درست ہے، جیسا کہ بیان ہوا کہ ظن و گمان پر عمل کرنے کی ممانعت ہے جو ضعیف حدیث سے معلوم ہوتا ہے، اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا قول ’’القاعدۃ الجلیلۃ فی التوسل والوسیلۃ‘‘ میں ہے، جو کہ اس کی تائید کرتا ہے اور وہ درج ذیل ہے:
’’شریعت میں احادیث ضعیفہ، جو کہ صحیح ہوں نہ حسن، پر اعتماد کرنا جائز نہیں، لیکن احمد بن حنبل اور دیگر علماء نے جائز قرار دیا ہے کہ انہیں فضائل اعمال میں روایت کرلیا جائے، جب تک معلوم نہ ہو کہ وہ ثابت ہے، جب معلوم نہ ہو کہ وہ کذب ہے اور یہ کہ وہ عمل جب معلوم ہو کہ وہ شرعی دلیل کے ساتھ مشروع ہے اور اس کی فضیلت میں ایک حدیث مروی ہے جس کے متعلق معلوم نہیں کہ وہ جھوٹ ہے، جائز ہے کہ ثواب صحیح ہو اور ائمہ میں سے کسی نے نہیں کہا کہ ضعیف حدیث کے ذریعے کسی چیز کو واجب یا مستحب قرار دینا جائز ہے اور جس نے یہ کہا تو اس نے اجماع کی مخالفت کی۔‘‘
پھر انہوں (یعنی شیخ الاسلام ابن تیمیہ) نے فرمایا:
’’احمد بن حنبل اور ان جیسے ائمہ شریعت میں ان جیسی احادیث پر اعتماد نہیں کرتے تھے اور جس نے (ان میں سے) کسی ایک سے نقل کیا کہ وہ ضعیف حدیث، جو کہ صحیح ہے نہ حسن، سے دلیل لیتے تھے، اس نے ان کے متعلق غلط بات کی…‘‘
اور علامہ احمد شاکر نے ’’الباعث الحثیث‘‘ (ص۱۰۱) میں فرمایا:
’’اور رہا وہ جو احمد بن حنبل، عبد الرحمن مہدی اور عبد اللہ بن مبارک نے فرمایا: ’’جب ہم نے حلال و حرام کے متعلق روایت کیا تو ہم نے (روایت کرنے میں) سختی کی اور جب ہم نے فضائل وغیرہ کے متعلق روایت کیا تو ہم نے تساہل سے کام لیا۔‘‘ وہ اس سے یہ مراد لیتے ہیں … جسے میں ترجیح دیتا ہوں، واللہ اعلم… کہ تساہل جو ہے وہ صرف حسن حدیث اخذ کرنے کے بارے میں ہے جو صحیح کے درجے کو نہیں پہنچی، صحیح اور حسن کے درمیان فرق کرنے کی اصطلاح ہمارے دور میں واضح طور پر قرار پذیر نہیں تھی، بلکہ اکثر متقدمین حدیث کو صرف صحیح قرار دیتے تھے یا صرف ضعیف۔‘‘
میں نے کہا: اس کے متعلق میرے نزدیک ایک اور پہلو بھی ہے اور وہ یہ ہے:
ان کے تساہل مذکور کو ان کے روایت کرنے پر ہی محمول کیا جائے جو ان کی اسانید کے ساتھ ہوں۔ جیسا کہ ان کی عادت ہے۔ ان اسانید کے ذریعے ان احادیث کے ضعف کی معرفت ممکن ہے، لہٰذا سند کا ذکر کر دینا ضعف کی تصریح سے بے نیاز کر دیتا ہے، یا وہ اسے ان کی اسانید کے بغیر روایت کر دیں، جیسا کہ وہ بعد والوں کا طریقہ ہے
|