اور اس کے ضعف کا بیان نہیں ہوتا، جیسا کہ وہ جمہور کا طریقہ و عمل ہے، پس وہ اللہ عزوجل کے لیے اس سے کہیں زیادہ ڈرنے والے ہیں کہ وہ یہ فعل کریں، واللہ تعالیٰ اعلم۔
(۲)… دوسرا موأخذہ: وہ یہ ہے کہ اس پر لازم ہے کہ وہ ان شرائط کی وضاحت کرے جن کی طرف اس نے اشارہ کیا ہے، جب تک کہ وہ ایک کتاب کی تعریف و تبصرے کے قصد و ارادے میں رہے جو کہ سینکڑوں ضعیف اور موضوع احادیث پر مشتمل ہے، تاکہ قارئین واضح طور پر جانتے ہوں جب وہ اس کے قول مذکور پر عمل کا انتخاب کریں، کیونکہ جب وہ اسے نہیں پہچانیں گے تو وہ ہر اس حدیث پر عمل کریں گے جسے وہ پڑھیں گے یا سنیں گے، تو وہ اس کی مخالفت میں مبتلا ہوجائیں گے کہ انہیں پتہ بھی نہیں چلے گا۔ اس لیے میں نے اس مناسبت سے اپنے اوپر لازم سمجھا کہ میں یہاں ثقہ مصدر سے ان شرائط کو لکھوں، تاکہ اس کی پابندی سے لوگوں کی اس امر سے دوری کی حد دیکھی جائے جس نے انہیں واہی اور موضوع احادیث کے ذریعے احکام کی ذمہ داری اور شریعت سازی کے دائرے کی توسیع تک پہنچایا، حافظ سخاوی نے ’’القول البدیع، فی الصلوۃ علی الحبیب الشفیع‘‘[1] میں فرمایا:
میں نے اپنے شیخ (یعنی: حافظ ابن حجر عسقلانی) سے کئی بار سنا… اور انہوں نے خود میرے لیے تحریر فرمایا… ضعیف پر عمل کرنے کی تین شرائط ہیں:
اوّل…: اس پر اتفاق ہے کہ وہ ضعف شدید نہ ہو، (اس طرح) وہ شخص نکل جائے جس نے کذابین و متہمین بالکذب سے ہی روایت کیا اور جس نے فحش غلطیاں کیں۔
دوم …: وہ عمومی بنیاد کے تحت مندرج ہو، تو وہ کچھ اس سے خارج ہو جائے گا جسے اس طرح اختراع کیا گیا ہو جس کی بالکل کوئی بنیاد نہ ہو۔
سوم …: عمل کرتے وقت اس کے ثبوت کا اعتقاد نہ رکھا جائے، تاکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بات نہ فرمائی ہو وہ آپ کی طرف منسوب نہ کی جائے۔ انہوں نے کہا: آخری دو ابن عبد السلام اور ان کے صاحب ابن دقیق العید سے ہیں اور پہلی کو العلائی نے نقل کیا ہے اس پر اتفاق ہے۔
میں نے کہا: یہ شرائط بہت ہی اہم اور دقیق ہیں، اگر ضعیف احادیث پر عمل کرنے والے ان شرائط کی پابندی کریں تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ ان پر عمل کرنے کا دائرہ تنگ ہوجائے گا، یا ان کی بنیاد ہی ختم ہوجائے گی اور اس کا بیان تین طرح سے ہے:
ا…: پہلی شرط اس حدیث کے حال کی معرفت کے وجوب پر دلالت کرتی ہے جس پر ان میں سے کوئی
|