عمل کرنا چاہتا ہے، تاکہ جب ضعف شدید ہو تو اس پر عمل کرنے سے اجتناب کیا جائے اور یہ وہ معرفت ہے جس پر قائم رہنے کو بہت سے لوگ مشکل سمجھتے ہیں اور علمائے حدیث کی کمی کی وجہ سے وہ ہر ضعیف حدیث پر عمل کرنا چاہتے ہیں، خاص طور پر اس دور میں، ان سے میری مراد، اہل تحقیق ہیں، وہ لوگوں کو صرف وہی حدیث بیان کرتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو اور وہ انہیں ضعیف حدیثوں کے متعلق بتاتے ہیں اور ان کو ان سے بچاتے ہیں، بلکہ یہ لوگ تو بہت ہی کم ہیں۔ فاللّٰہ المستعان۔
اسی لیے تم ضعیف احادیث پر عمل کرنے والوں کو دیکھو گے، انہوں نے اس شرط کی صریح مخالفت کی ہے، بے شک ان میں سے کوئی… خواہ وہ محدثین کے علاوہ اہل علم میں سے ہو۔ فضائل اعمال میں کسی حدیث سے جونہی آگاہ ہوتا ہے، وہ اس کے ضعف شدید سے محفوظ ہونے کی معرفت حاصل کیے بغیر اس پر عمل کرنے میں جلدی کرتا ہے، تو جب کوئی اس کے پاس آئے جو اسے اس کے ضعف کے متعلق بتائے تو وہ فوراً اس مزعوم قاعدے ’’فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل کیا جاتا ہے‘‘ کی طرف مائل ہوجاتا ہے اور اس کا سہارا لیتا ہے، تو جب اس شرط کی یاد دہانی کرائی جاتی ہے تو خاموش ہوجاتا ہے اور زبان سے ایک لفظ نہیں نکالتا!
میں نہیں چاہتا کہ میں نے جو کہا ہے اس کے متعلق مثالیں بیان کرتے ہوئے بہت دور نکل جاؤں، علامہ ابوالحسنات لکھنوی اپنی گزشتہ کتاب ’’الأجوبۃ‘‘ (ص:۳۷) میں علامہ شیخ علی قاری سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک حدیث کے بارے میں کہا:
’’…سب سے افضل دن عرفہ کا دن ہے، جب وہ جمعہ کے دن آئے، تو وہ ستر (۷۰) حج سے افضل ہے۔‘‘
اسے رزین نے روایت کیا ہے۔
’’رہا وہ جو بعض محدثین نے اس حدیث کی اسناد کے بارے میں ذکر کیا ہے کہ وہ ضعیف ہے تو ضعیف قرار دینے پر بھی مقصود کے لیے مضر نہیں، کیونکہ ضعیف حدیث فضائل اعمال میں معتبر ہے!‘‘ لکھنوی نے اسے برقرار رکھا۔
محترم قاری! اس پر غور فرمائیں، ان دونوں فاضل حضرات نے کس طرح اس شرط مذکور کو چھوڑا، کیونکہ وہ اس لکھی ہوئی حدیث کی اسناد پر حتمی طو رپر نہیں ٹھہرے، ورنہ وہ اس کا حال بیان کرتے، اور انہوں نے اس کا جواب دیتے ہوئے جدل کا طریق اختیار نہیں کیا: ’’فعلی تقدیر صحتہ‘‘ یعنی ضعیف ہونے کے قول کے درست ہونے پر! ان دونوں کو اس کا کس طرح حق پہنچتا ہے، اور علامہ محقق ابن قیم نے اس کے متعلق ’’زاد المعاد‘‘ (۱/۱۷) میں فرمایا:
’’وہ باطل ہے، اس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی بنیاد ثابت ہے نہ صحابہ کرام سے اور نہ ہی تابعین میں
|