Maktaba Wahhabi

559 - 756
۱: اجماع کا یہاں اصولی مفہوم ہے، اس کا صرف انہی مسائل میں پایا جانا ممکن ہے جو دین سے بالضرور معلوم ہیں، جیسا کہ اسے بلند پایہ علماء نے ثابت کیا ہے، جیسے ابن حزم نے ’’أصول الاحکام‘‘ میں، شوکانی نے ’’إرشاد الفحول‘‘ میں اور دیگر نے اور الاستاذ عبد الوہاب خلّاف نے اپنی کتاب ’’أصول الفقہ‘‘ میں اثبات کیا ہے، اور امام احمد نے اس اجماع کا دعویٰ کرنے والے کے رد میں اپنے مشہور کلام میں اس طرف اشارہ کیا ہے اور ان کے بیٹے عبد اللہ بن احمد نے اسے ان سے ’’المسائل‘‘ میں روایت کیا ہے۔ ۲: میں نے ان بہت سے مسائل کی تحقیق کی ہے جن کے بارے میں انھوں نے اجماع نقل کیا ہے، میں نے ان میں معروف اختلاف پایا، بلکہ میں نے ان مسائل میں جمہور کے مذہب کو دعویٰ اجماع کے خلاف دیکھا، اگر میں اس پر مثالیں پیش کرنا چاہوں تو کلام طویل ہوجائے گا، ہم یہاں اپنے موضوع تک ہی محدود رہتے ہیں، اب یہی کافی ہے کہ ہم صرف ایک مثال یاد کرائیں اور وہ ہے: نووی نے اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ مکروہ اوقات میں نماز جنازہ پڑھنا مکروہ نہیں، حالانکہ اس بارے میں اختلاف قدیم اور معروف ہے، اور بہت سے اہل علم اس مزعوم اجماع کے خلاف ہیں، جیسا کہ اس کی تحقیق مسئلہ (۸۷) میں بیان ہوئی اور ایک دوسری مثال ان شاء اللہ عنقریب پیش کی جائے گی۔ ان میں سے بعض کا موقف ہے کہ غیر والد کو والد پر قیاس کیا جائے گا، جبکہ یہ قیاس کئی وجوہ سے باطل ہے: ۱: یہ کہ وہ کئی قرآنی عمومات کے خلاف ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَ مَنْ تَزَکّٰی فَاِنَّمَایَتَزَکّٰی لِنَفْسِہٖ﴾ (فاطر:۱۸) ’’جو نیکی کرتا ہے تو وہ محض اپنی ہی ذات کے لیے نیکی کرتا ہے۔‘‘ اور اس کے علاوہ بھی آیات ہیں، جنھوں نے فلاح و کامیابی اور دخول جنت کو اعمال صالحہ کے ساتھ مشروط قرار دیا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ والد اپنے بچے کی تربیت اور اس کا اہتمام کرنے کی وجہ سے اپنی ذات کا تزکیہ کرتا ہے اور اپنے لیے نیکی کرتا ہے، اس کا اجر اسے ملے گا، جو کہ اس (والد) کے علاوہ کسی اور کو نہیں ملے گا۔ ۲: وہ قیاس مع الفارق ہے جب آپ یاد کریں کہ شرع نے بچے (اولاد) کو والد کی کمائی قرار دیا ہے، جیسا کہ روایت عائشہ میں بیان ہوا ہے، وہ اس (والد) کے علاوہ کسی اور کی کمائی نہیں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿کُلُّ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ رَہِیْنَۃٌ﴾ (المدثر:۳۸) ’’ہر ایک شخص اپنے اعمال کے لیے (اللہ کے روبرو) ذمہ دار ہے۔‘‘ اور وہ فرماتا ہے: ﴿لَہَا مَا کَسَبَتْ وَ عَلَیْہَا مَا اکْتَسَبَتْ﴾ (البقرۃ:۲۸۶) ’’ہر شخص وہی کچھ پائے گا جو اس نے کمایا اور وہ جواب دہ بھی اس کے لیے ہے جو اس نے کمایا۔‘‘ اور حافظ ابن کثیر نے اللہ عزوجل کے فرمان ﴿وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِِنسَانِ اِِلَّا مَا سَعٰی﴾ (النجم:۳۹) (اور یہ کہ انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کے لیے وہ کوشش کرتا ہے۔) کی تفسیر میں فرمایا:
Flag Counter