Maktaba Wahhabi

560 - 756
یعنی جس طرح اس پر کسی دوسرے کا بوجھ نہیں ڈالا جائے گا، اسی طرح وہ اجر بھی صرف وہی حاصل کرے گا جو اس نے اپنی ذات کے لیے کمایا ہوگا، ان آیات کریمہ سے شافعی رحمہ اللہ اور ان کے پیروکاروں نے استنباط کیا کہ قرآن خوانی کا ثواب فوت شدگان کو نہیں پہنچتا، کیونکہ وہ ان کے عمل میں سے ہے نہ ان کے کسب سے، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اس کا حکم دیا نہ اس کی ترغیب دی اور نہ ہی کسی نص اور اشارے کے ذریعے اس کی طرف راہنمائی فرمائی اور وہ صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کسی ایک سے بھی منقول نہیں۔ اگر وہ خیر و نیکی ہوتی تو وہ ہم سے پہلے اسے بجالاتے، وہ امور جن کے ذریعے سے (اللہ کا) قرب حاصل کیا جاتا ہے ان میں نصوص پر اکتفاء کیا جائے گا، ان میں مختلف قسم کے قیاس اور آراء کے ذریعے تصرف نہیں کیا جائے گا۔‘‘ عز بن عبد السلام نے ’’الفتاویٰ‘‘ (۲۴/۲۔ سال ۱۶۹۲) میں فرمایا: ’’جس نے اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی نیک کام کیا، پھر اس کا ثواب کسی زندہ یا مردہ کو بخش دیا، تو اس کا ثواب اس کی طرف منتقل نہیں ہوگا، کیونکہ ﴿لَّیْسَ لِلْاِِنسَانِ اِِلَّا مَا سَعٰی﴾ (النجم:۳۹) ’’انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کے لیے وہ کوشش کرتا ہے۔‘‘ اگر نیک کام اس نیت سے کیا جائے کہ یہ میّت کی طرف سے واقع ہو تو وہ اس کی طرف سے واقع نہیں ہوتا، سوائے اس کے جسے شرع نے مستثنیٰ کیا ہے، جیسا کہ صدقہ، روزہ اور حج۔‘‘ اور ابن کثیر نے جسے شافعی رحمہ اللہ سے ذکر کیا ہے، وہ بہت سے علماء اور حنفیہ کی ایک جماعت کا قول ہے، جیسا کہ الزبیدی نے اسے ’’شرح الإحیاء‘‘ (۱۰/۳۶۹) میں نقل کیا ہے۔[1] ۳: اگر یہ قیاس صحیح ہو تو اس کا تقاضا ہے کہ مردوں کو ثواب پہنچانا مستحب ہے اور اگر وہ اس طرح ہوتا تو سلف اسے بجالاتے، کیونکہ وہ بلاشک حصول ثواب کے ہم سے زیادہ حریص و کوشاں تھے اور انھوں نے یہ نہ کیا، جیسا کہ ابن کثیر کے کلام میں بیان ہوا، پس اس نے اس پر دلالت کی کہ قیاس مذکور صحیح نہیں اور یہی مراد ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ’’الإختیارات العلمیۃ‘‘ (ص۵۴) میں بیان فرمایا: ’’یہ سلف کی عادت نہ تھی کہ جب وہ نفل نماز پڑھتے یا نفل روزہ رکھتے، نفل حج کرتے یا قرآن پڑھتے تو اس کا ثواب اپنے مسلمان فوت شدگان کو بخش دیتے ہوں، سلف کے طریق سے ہٹنا مناسب نہیں، کیونکہ وہ (طریق) افضل و اکمل ہے۔‘‘
Flag Counter