میں نے مناسب سمجھا کہ میں اس کتاب کے بعض ابواب ’’جو تین ہیں‘‘ پر مختصر مفید رائے پیش کروں:
’’جبل ’’قاسیون‘‘ میں نماز پڑھنے اور وہاں دعا کرنے کی فضیلت میں جو وارد ہے اس کا بیان (ص۵۶)
’’المغارۃ‘‘ کی فضیلت کا بیان (ص۶۲)
’’اور اس مسجد کی فضیلت کا بیان جو برزہ میں ہے اور وہ مسجد ابراہیم ہے۔‘‘ (ص۶۹)
جان لیں کہ اس کتاب کے ان (تینوں) ابواب میں اور ان کے علاوہ دیگر ابواب میں کوئی ایک مرفوع حدیث ثابت نہیں، جواس کی دلالت کرتی ہو یا اس کے بارے میں وضاحت کرتی ہو، بلکہ باب اوّل میں اس کے متعلق دو منکر روایتیں ہیں، جبکہ دوسرے میں ایک اور موضوع روایت ہے، اور تیسرے باب میں حصان بن عطیہ اور قول زہری کے حوالے سے اسرائیلی قصہ ہے:
’’جو مسجد ابراہیم میں چار رکعتیں پڑھتا ہے وہ اپنے گناہوں سے اس طرح پاک ہوجاتا ہے جس طرح وہ اپنی پیدائش کے دن تھا۔‘‘
یہ زہری کے حوالے سے قطعاً باطل ہے، اسناد میں ان (زہری) تک اور حسان تک جہالت ہے، اس لیے یہ حدیث جن امور کو متضمن ہے ان پر عمل نہیں کیا جائے گا جیسے جبل قاسیون، مغارہ اور برزہ میں مسجد ابراہیم علیہ السلام ودیگر میں نماز پڑھنا اور دعا کرنا جنہیں آپ کتاب کے حواشی میں پائیں گے، کیونکہ یہ شریعت ہے اور صرف اس سے ثابت ہوتی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ایسی حدیث کے ذریعے ہو جو قابل حجت ہو، اور ابواب میں ضعیف کے علاوہ مروی ہے۔ اس پر بالاتفاق عمل نہیں کیا جائے گا، خاص طور پر یہ کہ وہ صحابہ اور سلف صالحین سے منقول نہ ہو، جبکہ ابن تیمیہ (ص:۵۳) [1] سے منقول بیان گزر چکا ہے کہ انھوں نے فرمایا: اگر وہ عمل مستحب ہوتا تو وہ (سلف) ہم سے پہلے اسے بجالاتے، ان میں سے بعض سے اس کے متعلق ممانعت ثابت ہے، ان میں سے سب سے پہلے عمر بن خطاب الفاروق ہیں، جن کی اقتداء کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم فرمایا ہے، اس بارے میں ان کے حوالے سے وارد ہوچکا ہے جو کہ اکیسویں حدیث کی شرح میں گزر چکا ہے۔ [2]
اور اللہ العظیم نے سچ فرمایا:
﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا﴾ (الاحزاب:۲۱)
’’تمہارے لیے رسول اللہ (کی زندگی) میں بہترین نمونہ ہے، اس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت
|