نے کچھ پانی لے لیا ہے۔‘‘[1]
یہ صریح ہے کہ خضر پرندوں کی بولی بھی جانتے تھے، اور وہ ایسے غیب سے ہے جسے کوئی انسان نہیں جانتا، اس حوالے سے تو وہ نبی سلیمان صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بیان کیا:
﴿ ٰٓیاََیُّہَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنطِقَ الطَّیْرِ﴾ (النمل:۱۶)
’’لوگو! ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے۔‘‘
اس مسئلے میں خلاصۂ قول: یہ جو دلائل بیان کیے گئے جب مسلمان ان پر غور و فکر کرے اور انہیں یاد کرلے تو اسے یقین ہوجائے گا کہ خضر کی نبوت کا موقف رکھنا درست ہے جیسا کہ جمہور علماء کا موقف ہے، اسی لیے انھوں نے وہ عجیب و غریب کام کیے جن پر موسیٰ صلی اللہ علیہ وسلم صبر نہ کرسکے، جبکہ وہ کلیم اللہ ہیں، اس کے ذریعے ہم زندیقوں کی وہ گرہ کھول سکتے ہیں جس کی طرف حافظ ابن حجر نے سابقہ کلام میں اشارہ فرمایا۔ اس طرح کے اور بھی امور ہیں جو اس زمرے میں آتے ہیں جو بہت سے صوفیاء ظاہر و باطن اور حقیقت و شریعت کا عقیدہ رکھتے ہیں، جس نے عوام تو کیا بہت سے خواص کے عقیدے کو خراب کردیا، انھوں نے صلاح کا عقیدہ رکھا، بلکہ بہت سے ایسے فاسقوں کے بارے میں ولایت کا عقیدہ رکھا جو کہ نماز پڑھتے ہیں نہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر باجماعت نماز پڑھتے ہیں اور نہ ان کی عیدوں میں شریک ہوتے ہیں، یہ ان کا ظاہری دعویٰ ہے، جبکہ باطن میں وہ اللہ کے بڑے ولی ہیں، وہ ظالم جو کہہ رہے ہیں اللہ تعالیٰ اس سے بہت زیادہ بلند و برتر ہے، اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا بطائحیہ کے ساتھ جو قصہ ہے جو وہ ان کے زمانے میں دمشق میں ولایت و کرامت کا دعویٰ کرتے تھے حتیٰ کہ اللہ نے ان کے خلاف ان (شیخ الاسلام) کی مدد فرمائی اور قاری سے ان کے باطن و باطل کو بالکل ختم کردیا۔
﴿اِِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَذِکْرٰی لِمَنْ کَانَ لَہٗ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَی السَّمْعَ وَہُوَ شَہِیْدٌ﴾ (ق:۳۷)
’’بے شک اس میں نصیحت ہے ایسے شخص کے لیے جس کے پاس دل ہو یا جس نے پوری توجہ سے بات سنی ہو۔‘‘
وصلی اللّٰہ علی محمد وآلہ وصحبہ وسلم
دمشق ۹ ربیع الأول ۱۳۹۴ھ
محمد ناصر الدین الالبانی
ہمارے شیخ نے ’’تخریج فضائل الشام ودمشق‘‘ (ص۶۸۔۷۰) رسالے کے آخر میں تیسویں حدیث کے تحت یہ بیان کیا ہے:
|