﴿عَالِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْہِرُ عَلَی غَیْبِہٖ اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُولٍ﴾
’’وہ عالم الغیب ہے، وہ کسی رسول جسے وہ پسند کرلے کے علاوہ اپنے غیب پر مطلع نہیں کرتا۔‘‘
اور یہ اس قصے کے کئی مواقع پر ظاہر ہے، ان میں سے جو میسر ہوا میں ذکر کروں گا:
(۱)… جب موسیٰ نے ان سے مصاحبت طلب کی تو انھوں نے فرمایا:
﴿اِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِیْعَ مَعِیَ صَبْرًا﴾ (الکہف:۶۷)
’’تم میرے ساتھ صبر کی استطاعت نہیں رکھو گے۔‘‘
خضر علیہ السلام کی طرف سے یہ جزم ویقین اس پر واضح دلیل ہے کہ انھیں اس بارے میں علم تھا اور وہ ان کی طرف سے ظن و تخمین کی قبیل سے نہ تھا، وہ ایسا نہیں کرسکتے اور وہ اضافہ اس کی تائید کرتا ہے جو اس آیت کے بعد حدیث کے بعض طرق میں ان الفاظ کے ساتھ بیان ہوا ہے:
(( وَکَانَ رَجُلًا یَعْلَمُ عِلْمَ الْغَیْبِ، قَدْ عَلِمَ ذٰلِکَ۔))[1]
’’وہ آدمی علم غیب جانتا تھا، اس نے یہ جان لیا تھا۔‘‘
(۲)… لڑکے کو قتل کرنا اور اس کی ان الفاظ میں تفسیر و تاویل کرنا:
’’رہا وہ لڑکا تو وہ فطرت کے روز ہی کافر پیدا کیا گیا، اس کے والدین اس پر بہت مہربان تھے، اگر وہ انہیں پالیتا، تو وہ ان دونوں کو سرکشی اور کفر پر لگا دیتا، لہٰذا ہم نے ارادہ کیا کہ ان دونوں کا۔ رب ان کو اس کی جگہ اور عطا کرے جو پاک نفسی میں اس سے بہتر اور محبت میں اس سے بڑھ کر ہو۔‘‘
ایک روایت میں یہ اضافہ نقل کیا: ’’اس کے والد نے اس کی والدہ سے جماع کیا تو وہ حاملہ ہوگئی، تو اس نے بچے کو جنم دیا جو اس (پہلے بچے) سے پاک نفسی اور محبت میں بڑھ کر تھا۔‘‘ [2]
ان (خضر علیہ السلام ) کا خبر دینا کہ وہ لڑکا کفر کی سرشت پر پیدا ہوا، یہ کہ اس کے والد نے اس کی والدہ سے صحبت کی تو وہ حاملہ ہوگئی اور اس نے اس سے بہتر کو جہنم دیا، یہ خالص غیبی امور سے متعلق ہے اس پر صرف نبوت و وحی کے طریق ہی سے اطلاع ہوسکتی ہے، تو یہ اس پر سب سے زیادہ قوی دلیل ہے کہ وہ نبی تھے، اگرچہ وہ رسول نہ بھی ہوں۔
(۳)… اسی ضمن سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’جب موسیٰ خضر رحمہم اللہ سے ملے تو ایک پرندہ آیا، اس نے اپنی چونچ پانی میں ڈالی، تو خضر نے موسیٰ سے کہا: کیا آپ جانتے ہیں یہ پرندہ کیا کہہ رہا ہے؟ انھوں نے کہا: کیا کہہ رہا ہے؟ خضر نے کہا: وہ کہہ رہا ہے: اللہ کے علم کے مقابلے میں تمہارا اور موسیٰ کا علم ایسے ہی ہے جیسے میری چونچ
|