Maktaba Wahhabi

583 - 756
انتہائی متاثر ہیں، جب ہم ان کے کلام میں ایک لفظ سے آگاہ ہوئے اس کے قرآن میں ایک خاص معنی ہے تو پھر ہم پر واجب ہے کہ ہم اسے اس معنی پر محمول کریں، نہ کہ اس معنی پر جو کہ متاخرین کی اصطلاح ہے، پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَکَرَّہَ اِِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْیَانَ﴾ (الحجرات:۷) ’’اور اس نے تمہارے لیے کفر، فسق اور نافرمانی کو مکروہ قرار دیا ہے۔‘‘ جبکہ یہ سب کام حرام ہیں، تو یہ معنی( واللہ اعلم) وہ ہے جو شافعی رحمہ اللہ کی اپنے گزشتہ قول: ’’میں مکروہ جانتا ہوں‘‘ سے مراد ہے، اور اس کی اس سے بھی تائید ہوتی ہے کہ انھوں نے اس کے بعد فرمایا: ’’اور اگر اس نے اس (قبر) کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی تو وہ اس کے لیے کفایت کرے گی اس نے برا کیا۔‘‘ ان کے قول: ’’اس نے برا کیا‘‘ اس کا معنی ہے اس نے برائی کا ارتکاب کیا، یعنی اس نے حرام کام کیا، اسلوب قرآن میں برائی سے یہی حرام مراد ہے، اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاسراء میں قتل اولاد، زنا کے قریب جانے اور قتل نفس وغیرہ سے منع کرنے کے بعد فرمایا: ﴿کُلُّ ذٰلِکَ کَانَ سَیِّۂ عِنْدَ رَبِّکَ مَکْرُوْہًا﴾ (الاسراء:۳۸) ’’ان سب کی برائی تیرے رب کے ہاں مکروہ ہے۔‘‘یعنی حرام ہے۔ اور اس سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ شافعی کے کلام میں اس مسئلے میں کراہت سے یہی معنی (حرام) مراد ہے: ان کے مذہب سے ہے: نہی میں اصل تحریم ہے، مگر جو دلیل کسی پر دلالت کرے کہ وہ کسی دوسرے معنی کے لیے ہے، جیسا کہ انھوں نے اس کی اپنے رسالے ’’جماع العلم‘‘ (ص۱۲۵) میں اور اسی طرح اپنی کتاب ’’الرسالۃ‘‘ (ص۳۴۳) میں صراحت کی ہے، اور جس نے بھی اس مسئلے کا اس کے دلائل کے ساتھ مطالعہ کیا ہے اس کو معلوم ہے، کہ ایسی کوئی دلیل نہیں ملتی جو بعض گزشتہ احادیث میں وارد نہی کو تحریم کے علاوہ کوئی اور معنی دیتی ہو، کس طرح جبکہ دوسری احادیث تاکید پیدا کرتی ہیں کہ وہ تحریم کے لیے ہے جیسا کہ بیان گزرا، اسی لیے میں قطعی طور پر کہتا ہوں کہ تحریم ہی شافعی کا مذہب ہے، خاص طور پر کہ انھوں نے کراہت کی صراحت کی کہ انھوں نے بعد میں حدیث ذکر کی: (( قَاتَلَ اللّٰہُ الْیَہُوْدَ وَالنَّصَارٰی اِتَّخَذُوْا قُبُوْرَ أَنْبِیَاۂئہمْ مَسَاجِدَ)) ’’اللہ یہود و نصاریٰ کو ہلاک کرے انھوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا۔‘‘ جیسا کہ بیان ہوا، تب کوئی ابہام نہ رہا جب حافظ عراقی … جو شافعی المذہب ہیں … نے قبر پر مسجد بنانے کی حرمت کی تصریح کی۔ پھر ہمارے شیخ نے اسی کتاب پر ص(۴۰۔۴۶) میں بیان کیا:
Flag Counter