Maktaba Wahhabi

582 - 756
ایک روایت میں ہے: ’’انھوں نے جو کیا وہ اس سے تنبیہ کرتے اور ڈراتے ہیں‘‘، یعنی وہ اپنے فرمان کے ذریعے اپنی امت کو ڈراتے ہیں کہ کہیں وہ بھی وہ کام نہ کریں جو انھوں نے کیا، کہیں ان پر بھی لعنت نہ کی جائے جس طرح ان (یہود و نصاریٰ) پر لعنت کی گئی، اسی سے ہمارے اصحاب نے کہا: انبیاء اور اولیاء کی قبروں کی طرف رخ کرکے برکت و عظمت کے طور پر نماز پڑھنا حرام ہے، اس فعل کا کبیرہ ہونا ان احادیث مذکورہ سے ظاہر ہے، بعض حنابلہ نے کہا: آدمی کا قبر سے برکت کے حصول کے لیے قبر کے پاس نماز پڑھنے کا قصد کرنا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عین مخالفت اور دین سازی ہے جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی، اس سے ممانعت ہے اور پھر اس پر اجماع ہے کہ قبر کے پاس نماز پڑھنا اور انہیں مساجد بنانا یا ان پر عمارت بنانا بہت بڑی حرمت اور شرک کا سب سے بڑا سبب ہے، اور کراہت کے متعلق قول اس کے علاوہ پر محمول ہے، تب کسی فعل کو جائز قرار دینے کا علماء کے متعلق گمان نہیں کرنا چاہیے جس فعل کے کرنے والے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تواتر کے ساتھ لعنت منقول ہے، انہیں گرانے میں جلدی کرنا اور ان قبوں کو، جو کہ قبروں پر بنائے گئے ہیں، گرانا واجب ہے، وہ تو مسجد ضرار سے بھی زیادہ نقصان دہ ہیں، کیونکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معصیت پر تعمیر کیے گئے ہیں جبکہ اس سے منع کیا گیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونچی قبروں کو گرانے کا حکم دیا ہے۔ قبر پر موجود ہر قندیل یا چراغ کو ہٹانا واجب ہے، اور اس کے لیے کسی چیز کو وقف کرنا اور نذر ماننا صحیح نہیں۔‘‘ یہ سب فقیہ ابن حجر ہیتمی کا کلام ہے اور اسے محقق آلوسی نے ’’روح المعانی‘‘ (۵/۳۱) میں اس پر ثابت رکھا ہے، اور وہ کلام دین میں فہم پر دلالت کرتا ہے اور ان کا قول جسے انھوں نے بعض حنابلہ سے نقل کیا ہے: ’’کراہت کے متعلق قول اس کے علاوہ پر محمول ہے۔‘‘ گویا کہ وہ شافعی کے قول کی طرف اشارہ کرتے ہیں ’’میں قبر پر مسجد بنانے کو مکروہ جانتا ہوں…‘‘ ان کا وہ کلام جسے میں نے مکمل طور پر اس میں نقل کیا جو اس (ص۳۱) پر گزر گیا، اور اس پر شوافع کے کچھ اتباع ہیں جیسا کہ ’’التہذیب‘‘ اور اس کی شرح ’’المجموع‘‘ میں ہے، اور یہ عجیب ہے کہ وہ اس پر بعض گزشتہ احادیث کے ذریعے استدلال کرتے ہیں، اس کے باوجود کہ وہ اس کی تحریم میں صریح ہیں، اور ایسا کرنے والے پر لعنت ہے، اگر ان کے نزدیک مکروہ ہونا تحریم کے لیے ہوتا تو بھی معاملہ قریب ہوتا، لیکن وہ تو ان کے نزدیک تنزیہ کے لیے ہے، مکروہ کہنے کا قول ان احادیث کے ساتھ کس طرح اتفاق کرسکتا ہے جن کے ذریعے وہ اس پر استدلال کرتے ہیں؟! میں یہ کہتا ہوں، میں شافعی کی سابقہ عبارت میں کراہت کو خاص طور پر مکروہ تحریمی پر محمول کرنے کو ناممکن نہیں سمجھتا! کیونکہ وہ استعمال قرآنی میں وہی معنی شرعی مقصود ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ شافعی اسلوب قرآن سے
Flag Counter