Maktaba Wahhabi

102 - 756
نہیں جیسا کہ میں نے اسے اپنی کتاب ’’تمام المنۃ فی التعلیق علی فقہ السنۃ‘‘ کے مقدمے میں ثابت کیا ہے، امید ہے کہ وہ ان شاء اللہ جلد ہی شائع ہوجائے گی۔[1] پس انہوں نے یعنی نووی نے گمان کیا کہ وہ حدیث صرف ضعیف ہے! جبکہ وہ تو اس سے زیادہ سنگین ہے جیسا کہ آپ نے دیکھا ہے، واللہ المستعان۔ ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’الضعیفۃ‘‘ (۲/۶۵) میں حدیث[2] رقم (۵۹۹) کے تحت فرمایا: یہاں فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل کے متعلق مشہور جو قول ہے وہ لازم نہیں آتا، کیونکہ یہ تو اس کے متعلق بات کرنے کا مقام ہے جس کی مشروعیت کتاب یا سنت صحیحہ سے ثابت ہو، اور جو اس کے علاوہ ہو تو اس میں ضعیف حدیث پر عمل کرنا جائز نہیں؟ کیونکہ وہ شریعت ہے اور وہ ضعیف حدیث سے جائز نہیں، کیونکہ وہ تو بالاتفاق صرف مرجوح گمان ہی کا فائدہ دیتی ہے، تو پھر اس طرح کی روایات پر کس طرح عمل کرنا جائز ہے؟! جو شخص اپنے دین کو سلامت رکھنا چاہتا ہے وہ اس سے آگاہ رہے، کیونکہ اکثریت اس سے بے خبر ہے، ہم اللہ تعالیٰ سے ہدایت و توفیق کی درخواست کرتے ہیں۔ اور ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’حجۃ الوداع‘‘ (ص۱۲۷۔۱۲۹) میں عرفات کی بدعات میں سے بدعت رقم (۹۱) پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’جو یہ بات لوگوں کی زبانوں پر مشہور ہے کہ جمعہ کے دن عرفات میں وقوف کرنا بہتر (۷۲) حجوں کے برابر ثواب رکھتا ہے۔‘‘اس بدعت کی بنیاد ایک موضوع روایت ہے، ابن القیم رحمہ اللہ نے ’’زاد المعاد‘‘ (۱/۲۳) میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے، انہوں نے فرمایا: ’’یہ روایت باطل ہے اس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی اصل نہیں ملتی۔‘‘ لہٰذا علامہ لکھنوی نے ’’الاجوبۃ الفاضلۃ‘‘ (ص۳۷۔ طبع حلب) میں شیخ (ملا) علی القاری سے جو نقل کیا ہے اس سے دھوکا نہیں کھانا چاہیے، انہوں نے فرمایا: ’’رہا وہ جو بعض محدثین نے اس حدیث کی اسناد میں جو ذکر کیا ہے کہ وہ ضعیف ہے، تو اس حدیث کے ضعیف ہونے کے باوجود مقصود کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا، کیونکہ فضائل اعمال میں ضعیف حدیث اربابِ کمال میں سے تمام علماء کے ہاں قابل اعتبار ہے۔‘‘ تو ہم نہیں جانتے کہ کسی نے صرف اس کے ضعیف ہونے کی صراحت کی ہو، جبکہ محقق ابن القیم نے اس پر باطل ہونے کا حکم لگایا ہے۔ اور اس میں فی الواقع اس موقف کی مذمت کی مثالوں میں سے ایک مثال ہے جو فضائل اعمال میں ضعیف
Flag Counter