Maktaba Wahhabi

101 - 756
پھر یہ حدیث اور اس کے معنی کی دیگر احادیث، گویا کہ وہ اس گناہ کا ایک سہارا ہے جو یہ کہتا ہے کہ فضائل اعمال میں ضعیف روایت پر عمل کرنا جائز ہے، جبکہ ہمارا موقف یہ ہے کہ حدیث پر اس کے ثبوت کے بعد ہی عمل کرنا جائز ہے، جیسا کہ محقق علماء کا موقف ہے، جیسے کہ ابن حزم اور ابن العربی المالکی [1] اور دیگر کا موقف ہے۔ جنھوں نے ضعیف روایت پر عمل کرنے کو جائز قرار دیا ہے انہوں نے کچھ شرائط مقرر کی ہیں، ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں: (۱)… اس پر عمل کرنے والا اعتقاد رکھے کہ وہ حدیث ضعیف ہے۔ (۲)… وہ اسے مشہور نہ کرے، تاکہ کوئی دوسرا آدمی ضعیف حدیث پر عمل نہ کرے، اور وہ کسی ایسے عمل کو مشروع قرار نہ دے جو کہ مشروع نہیں، یا کوئی جاہل اسے دیکھے گا تو وہ سمجھے گا کہ وہ صحیح سنت ہے، جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’تبیین العجب بما ورد فی فضل رجب‘‘ (ص:۳۔۴) میں اس کی صراحت کی ہے، انہوں نے فرمایا: ’’الاستاذ ابن عبد السلام ودیگر نے اس معنی کی صراحت کی ہے، آدمی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: ’’جس نے مجھ سے کوئی حدیث روایت کی جسے وہ کذب سمجھتا ہے تو وہ ایک جھوٹا شخص ہے۔‘‘ کے زمرے میں داخل ہونے سے بچنا چاہیے، احکام یا فضائل میں حدیث پر عمل کرنے میں کوئی فرق نہیں، کیونکہ وہ سب شریعت ہیں۔‘‘ میں کہتا ہوں: یہ امر مخفی نہیں کہ ان شرائط پر عمل کرنا اس موضوع روایت کے منافی ہے، اسے بیان کرنے والے گویا کہ وہ اس کے موضوع ہونے کے متعلق کہہ رہے ہیں، یہی مطلوب ہے، غور کریں۔ ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’الضعیفۃ‘‘ (۲/۲۶۴) میں حدیث [2] (۸۷۲) کے تحت فرمایا: اس کے ذریعے حکم شرعی پر کس طرح استدلال کیا جائے گا جب کہ وہ کراہت ہے؟! بلکہ اس کے ذریعے اس پر استدلال کرنا جائز نہیں، اگر فرض کیا جائے کہ وہ صرف ضعیف ہے، یعنی: وہ موضوع ہے نہ بہت ہی ضعیف، کیونکہ احکام شریعت بالاتفاق ضعیف حدیث سے ثابت نہیں ہوتے، میرا خیال ہے کہ نووی رحمہ اللہ تعالیٰ کو غلط قاعدے کہ ’’فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل کیا جائے گا‘‘ کی طرف سے اس طرح کا خیال آیا ہے، جبکہ وہ قاعدہ صحیح
Flag Counter