(۳)… آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو ثابت ہے وہ غیر ثابت سے بے نیاز کردیتا ہے، جس طرح کہ اس مسئلے کے بارے میں امر ہے، بے شک یہ صحیح حدیث اپنے عموم کی وجہ سے ضعیف حدیث سے بے نیاز کردیتی ہے۔
انہوں نے ’’احکام الجنائز‘‘ (ص۱۹۲) میں فرمایا:
تفصیل مذکور [1] شرع میں ثابت نہیں کہ وہ فضائل اعمال میں سے ہے کہ کہا جائے: اس حدیث پر عمل کیا جائے گا کیونکہ وہ فضائل اعمال میں ہے، بلکہ ضعیف حدیث پر عمل کرنے کو جائز قرار دینا اس کی مشروعیت کا اثبات ہے، اور یہ اس لیے ہے کہ مشروعیت کا سب سے کم درجہ استحباب ہے، اور وہ پانچ احکام میں سے ایک حکم ہے جو کہ صرف صحیح دلیل ہی سے ثابت ہوتے ہیں اور علماء کا اتفاق ہے کہ ضعیف اس میں مفید نہیں۔
صنعانی نے ’’سبل السلام‘‘ (۲/۱۶۱) میں موت کے بعد تلقین کی روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا:
’’اس پر عمل کرنا بدعت ہے۔‘‘
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’احکام الجنائز‘‘ (ص۱۹۸) کے حاشیے میں الصنعانی رحمہ اللہ کے قول: ’’اس پر عمل کرنا بدعت ہے۔‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا:
اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ بہت سے علماء اس سے غافل ہیں، کیونکہ وہ اس جیسی حدیث[2] کے ذریعے، ایک قاعدے ’’فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل کیا جائے گا‘‘ پر جو کہ ان کی طرف سے ہے، اعتماد کرتے ہوئے بہت سے امور کو مشروع اور مستحب قرار دیتے ہیں اور انہوں نے اس طرف توجہ نہیں کی کہ اس کی مشروعیت کا مرکز کتاب و سنت سے ثابت ہونا ہے، نہ کہ محض ضعیف حدیث۔
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’الضعیفہ‘‘ (۱/۶۵۰۔۶۵۱) میں حدیث رقم (۴۵۱) کے تحت فرمایا:
اور اس حدیث [3] کے برے آثار میں سے ہے کہ ثواب کی امید پر کسی بھی روایت پر عمل کرنے کا حکم دیا جائے، خواہ وہ روایت اہل علم کے ہاں صحیح ہو یا ضعیف یا موضوع، اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جمہور مسلمانوں علماء، خطباء اور مدرسین اور دیگر نے احادیث روایت کرنے اور ان پر عمل کرنے میں تساہل سے کام لیا، جبکہ اس میں ان صحیح احادیث کی صریح مخالفت ہے جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث روایت کرنے سے روکا گیا حتیٰ کہ اس روایت کا صحیح ہونا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوجائے، ہم نے اسے مقدمے میں بیان کردیا ہے۔
|