Maktaba Wahhabi

115 - 756
ہے اور وہ گمان کرتے ہیں کہ اس میں کوئی اختلاف نہیں، کیسے نہیں جبکہ نووی رحمہ اللہ نے اپنی کئی کتابوں میں اس پر اتفاق نقل کیا ہے؟ اور انہوں نے جو نقل کیا ہے وہ واضح طور پر محل نظر ہے، کیونکہ اس میں اختلاف مشہور ہے، کیونکہ بعض محقق علماء کا یہ موقف ہے کہ اس پر مطلق طور پر عمل نہیں کیا جائے گا، احکام میں نہ فضائل میں، شیخ قاسمی رحمہ اللہ نے ’’قواعد التحدیث‘‘ (ص:۴۹) میں فرمایا: ’’ابن سیّد الناس نے اسے یحییٰ بن معین کے حوالے سے ’’عیون الاثر‘‘ میں بیان کیا ہے اور ’’فتح المغیث‘‘ میں اسے ابوبکر بن العربی کی طرف منسوب کیا ہے اور ظاہر ہے کہ بخاری و مسلم کا بھی یہی موقف ہے… اور وہ ابن حزم کا موقف ہے…‘‘ میں نے کہا: یہی حق ہے، اس میں میرے نزدیک کئی امور کے پیش نظر کوئی شک نہیں: اوّل…: ضعیف حدیث ظن مرجوح کا فائدہ دیتی ہے، اس پر عمل کرنا بالاتفاق جائز نہیں، جو اس سے فضائل میں ضعیف حدیث پر عمل کرنا نکالتا ہے وہ لازمی طور پر دلیل لائے، مگر یہ نہیں ہوسکے گا۔ دوم …: میں ان کے قول ’’…فضائل اعمال میں‘‘ سے یہ سمجھتا ہوں: وہ اعمال جن کی مشروعیت اس چیز سے ثابت ہوتی ہے جو شرعی طور پر قابل حجت ہے اور اس کے ساتھ ضعیف حدیث ہو، اس پر عمل کرنے والے کے لیے اجر خاص ہوتا ہے، پس اس صورت میں فضائل اعمال میں اس پر عمل کیا جائے گا، کیونکہ اس میں اس پر عمل کرنے میں کوئی شریعت سازی نہیں، اس میں تو صرف خاص فضیلت ہے جس کے ملنے کی عمل کرنے والا امید رکھتا ہے، اور بعض علماء نے قولِ مذکور سے یہی معنی مراد لیا ہے، جیسا کہ شیخ علی قاری رحمہ اللہ نے، انہوں نے ’’المرقاۃ‘‘ (۲/۳۸۱) میں فرمایا: ’’ان کا یہ کہنا کہ فضائل میں ضعیف حدیث پر عمل کیا جائے گا، اگرچہ اجماع کے طور پر تقویت نہ ملے جیسا کہ نووی نے فرمایا ہے کہ اس کا موقع ومحل ہے کتاب اللہ یا سنت سے ثابت شدہ فضائل۔‘‘ اس پر عمل کرنا جائز ہے، اگر عمل کی مشروعیت جو (عمل) اس (ضعیف روایت) میں ہے اس کے علاوہ ایسی دلیل سے ثابت ہو جو قابل حجت ہو، لیکن مجھے یقین ہے کہ اس قول کے زیادہ تر قائلین اس کی وضاحت کے باوجود اس سے یہ معنی مراد نہیں لیتے، کیونکہ ہم انھیں ایسی ضعیف احادیث پر عمل کرتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ وہ عمل ان کے علاوہ دیگر احادیث ثابتہ سے ثابت نہیں ہوتا، جیسے امام نووی کا استحباب۔ اور مؤلف … سیّد سابق … نے ان کی متابعت کی ہے کہ جب اقامت کہنے والا ’’قد قامت الصلوۃ‘‘ کہے تو سننے والا ’’أَقَامَہَا اللّٰہُ وَأَدَامَہَا‘‘ کہے، حالانکہ اس بارے میں جو حدیث وارد ہے وہ ضعیف ہے، اس کا بیان عنقریب آئے گا، اس کی مشروعیت اس ضعیف حدیث کے علاوہ کسی اور حدیث سے ثابت نہیں ہوئی، اس کے باوجود انہوں نے اسے مستحب قرار دیا ہے، حالانکہ
Flag Counter