یہ اس کے خلاف دلیل ہے کہ جب اس نے اس جھوٹے دعوی کو حاشیے میں ثابت کرنا چاہا، اس نے اس کی طرف ایک اور جھوٹا دعوی منسوب کر دیا، تواس نے کہا:
’’کئی ایک نمایاں شخصیات نے اس کی صحت کی تصریح کی ہے: حتی کہ ابن حجر…… نے الصواعق (ص۲۵) میں اس کا اعتراف کیا ہے!‘‘
میں نے کہا: وہ ابن حجر مذکور کے علاوہ کسی ایک سے اس کی صحت نقل نہ کر سکا، اور وہ (ابن حجر مذکور) حافظ عسقلانی نہیں، وہ تو ہیتمی فقیہ ہے، افسوس کی بات ہے کہ اس نے کتابِ مذکور میں اس کی صراحت کی ہے کہ طبرانی کی سند صحیح ہے!
اس جیسے شخص سے یہ بات قبول نہیں کی جائے گی، کیونکہ وہ تصحیح و تضعیف کی معرفت رکھنے والوں میں سے نہیں، خاص طور پر جبکہ اس میں نماطی ہے جس کے متعلق امام العسقلانی نے جزم کے ساتھ بیان کیا ہے کہ وہ ضعیف ہے (جیسا کہ بیان ہوا) تو پھر اس کی اسناد کی صحت کہاں ہے، بلکہ اس پر اجماع ہے؟!
(۲)… اس کا حدیث کو زید بن ارقم کی روایت قرار دینا، حالانکہ وہ حذیفہ (بن اسید) کی روایت سے ہے جیساکہ میں نے دیکھا! اور ظاہر ہے کہ اس نے حدیث کے راوی صحابی کو مغالطہ دینے کی خاطر عمداً تبدیل کیا ہے، کیونکہ وہ اس کے مثل یا اس طرح بہت زیادہ کرتا ہے! اللہ اس کے استحقاق کے مطابق اس سے معاملہ کرے۔
وہ کلام صرف اس اسناد کے ساتھ مخصوص ہے جو اس سیاق سے آیا ہے، کوئی ہم پر اعتراض نہ کرے کہ وہ حدیث (غدیر) بہت سے طرق سے آئی ہے؟ پس وہ قطعاً صحیح ہے! ہم کہتے ہیں:
ہاں وہ فی الجملہ صحیح ہے، مگر یہ کہ اس کے طرق اس کے متون سے بہت زیادہ اختلاف کرتے ہیں، پس متن جس پر متفق ہو تو وہ صحیح ہے، جیسا کہ درج ذیل میں ہے:
(( مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ، اَللّٰھُمَّ! وَالٍ مَنْ وَالَاہُ وَعَادِ مَنْ عَادَاہُ۔))
’’جس کا میں مولا (دوست) ہوں تو علی اس کے مولا ہیں، اللہ! جو ان سے دوستی رکھے تو اس سے دوستی رکھ، اور جو ان سے دشمنی رکھے تو اس سے دشمنی رکھ۔‘‘
اس کے طرق صحیح ہیں، میں نے ’’الصحیحۃ‘‘ (۱۷۵۰) میں ان میں سے ایک بڑا حصہ جمع کیا ہے۔
اور جس کے متن پر اختلاف ہو، تب اسناد کی طرف رجوع کیا جائے گا، پس اگر صحیح ہوا تو ٹھیک، اگر صحیح نہ ہوا تو پھر نہیں۔
تب اس نوع کی نوع اوّل کے ساتھ تصحیح جائز نہیں۔ (جس طرح شیعی کرتا ہے) جیسا کہ وہ ظاہر ہے اور وہ داناؤں پر مخفی نہیں، کیونکہ گمراہ لوگ زیادہ تر سنداً ضعیف روایت کا ناجائز استعمال کرتے ہیں، کیونکہ اس کا ایک خاص
|