سیاق ہے جو اسانید صحیحہ میں وارد نہیں، پھر وہ کہتے ہیں کہ حدیث صحیح ہے، اور وہ اس کی اصل مراد لیتے ہیں، اور وہ اس کے ذریعے سیاق خاص پر استدلال کرتے ہیں۔
پھر ہمارے شیخ نے غدیر (خم) کے متعلق متعدد روایات تخریج کے ساتھ نقل کی ہیں، پھر انہوں نے اس کے بعد ’’الضعیفۃ‘‘ (۱۰/۶۸۴۔ ۶۸۷) میں ذکر کیا:
تنبیہ: یہ تخریج تم پر واضح کرے گی کہ حدیث غدیر کے راویوں نے اس کے سیاق میں اختلاف کیا ہے، ان میں سے مطول ہے اور ان میں سے مختصر ہے۔
شیعی کی ائمہ السنۃ کے خلاف ظلم و زیادتی اور سرکشی و حسد و کینے میں سے اس کا یہ کہنا ہے (اس میں بعض روایات بیان کرنے کے بعد) اور ان میں سے نسائی کی زید سے روایت ہے، اس نے (ص۱۹۰) بیان کیا:
’’اس حدیث کو مسلم نے اسے زید بن ارقم سے متعدد طرق[1] سے روایت کیا ہے، لیکن انہوں نے اسے اپنی لغزش سے مختصر بیان کیا۔ اور وہ اسی طرح کرتے ہیں!!‘‘
اس نے اس طرح کہا، اللہ کرے وہ ٹھیک بول نہ سکے! اس میں حیاء کی کتنی کمی ہے! اسے کس نے امام مسلم پر تہمت لگانے پر آمادہ کیا کہ انہوں نے اسے مختصر بیان کیا … اگرچہ وہاں اختصار مقصود تھا … تو جو اس کے اوپر راوی تھے وہ کون ہیں؟ اس کا ان پر یہ تہمت لگانا کس طرح صحیح ہو سکتا ہے، امام احمد نے بھی ان کی روایت کی مثل مختصر روایت کیا ہے؟!
پھر وہ نسائی ودیگر کے متعلق کیا کہے گا جنہوں نے اس حدیث کو دوسرے طرق سے روایت کیا ہے! ان میں سے کوئی دوسرے سے زیادہ بیان کرتا ہے، اور کوئی دوسرے سے کم کرتا ہے، خاص طور پر ترمذی اپنی روایت میں، کیا ان سب نے حدیث کو مختصر بیان کیا اور انہوں نے اسے کاٹ دیا؟
بلکہ یہ ظالم شیعی حاکم کے معاملے میں کیا کہتا ہے … جن پر تشیع کا واضح اتہام ہے … کہ انہوں نے حدیث کو مختصر کیا جیسا کہ اس کا مذکورہ قول ہے۔
’’… تو اس نے حدیث کو مطول بیان کیا؟!‘‘
کیا وہ حاکم زیادہ حق دار نہیں کہ مسلم کی نسبت اختصار حدیث کے حوالے سے انہیں متہم کیا جائے، اگر اختصار کوئی تہمت ہے؟! لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا:
(( اِذَا لَمْ تَسْتَحِ فَاصْنَعْ مَا شِئْتَ۔))
|