’’جب تو حیا نہ کرے تو پھر جو چاہے سو کر۔‘‘
ؑؑاللہ کی باریک اور مخفی حکمتوں سے ہے کہ اللہ نے اس معاملے کو کھول دیا جس کا شیعہ نے امام مسلم کو متہم قرار دیا تھا، وہ اس شیعی کی اپنی کرتوت ہے، پس وہ خود ہی روایات کو مختصر کرتا اور انہیں کاٹتا ہے، اور وہ یہ اپنی خواہش نفس کی وجہ سے کرتا ہے، اس نے امام پر یہ ناکام طعنہ زنی کے بعد کہا:
’’سعد سے مروی ہے، انہوں نے فرمایا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، جب آپ غدیر (خم) پہنچے! آپ لوگوں کے لیے ٹھہر گئے…‘‘
میں نے کہا: اس نے حدیث ذکر کی، وہ متن کے لحاظ سے صحیح ہے جبکہ سند کے لحاظ سے ضعیف ہے، کیونکہ اس میں ایک راوی مجہول ہے، اس کے باوجود اس کے سیاق میں واقع ہوا ہے جو اس کے راوی کے ضعف پر دلالت کرتا ہے، وہ ہے اس کے شروع میں یوں بیان کرنا: ہم مکہ کے راستے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے جبکہ آپ اس (مکہ) کی طرف رخ کیے ہوئے تھے، جب آپ پہنچے…… الحدیث[1]
اس کے مخرج نسائی کے نزدیک اس کی نص اسی طرح ہے جسے شیعی نے اس کی طرف منسوب کیا ہے، اور اس کے باوجود، اس نے اس میں سے یہ بات حذف کر دی:
مکہ کے طریق میں جبکہ آپ اس (مکہ) کی طرف رخ کیے ہوئے تھے! اور اس نے اس کے متعلق بتایا بھی نہیں؟ کیونکہ اگر وہ بتا دیتا تو اسے اندیشہ تھا کہ بعض قارئین کو حدیث کی بنیاد کے صحیح ہونے کے بارے میں شک گزر سکتا ہے، لیکن وہ اس علم سے لاعلمی کی وجہ سے اس شک کو، جس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، دور نہیں کر سکتا کہ اس طرح کہا جائے: حدیث کی اصل صحیح ہے!
رہا اس کا قول: آپ اس (مکہ) کی طرف رخ کیے ہوئے تھے… ! وہ اس کے بعض روات کی غلطی ہے، کیونکہ زید و دیگر کی روایت میں دوسرے طرق اس پر متفق ہیں کہ یہ واقعہ آپ کے حجۃ الوداع سے واپسی کا ہے، اس شیعی نے بذات خود اس بارے میں بعض روایات ذکر کی ہیں (ص ۱۷۸، ۱۸۹)
اس سے واضح ہوتا ہے کہ اس شیعی کے بارے میں مشہور مثل صادق آتی ہے: اس نے اپنی مصیبت مجھ پر ڈالی اور کھسک گئی۔
اور جان لیجیے کہ جس بعض کی طرف میں نے سابقہ بیان میں اشارہ کیا: کہ حدیث غدیر، شیعی نے اسے (۱۹۰) براء بن عازب کی روایت کے حوالے سے امام احمد کی روایت سے دو طرق سے نقل کیا ہے (اس نے اسی طرح کہا) پس اس نے اسے ذکر کیا اور اضافہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے بعد: ’’جو اس سے دشمنی رکھے تو اس سے دشمنی
|