Maktaba Wahhabi

156 - 756
اور سنت کی توجیہات سے بیگانہ ہے، سلف صالح … رضوان اللّٰہ تعالٰی علیہم … نے اسے نہیں جانا اور وہ ان میں سے کسی ایک سے بھی منقول نہیں، بلکہ وہ ان کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں آیا! دین حنیف میں معلوم اور طے شدہ ہے کہ امور دین میں سے بدعتی کا ہر امر مردود و باطل ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے درج ذیل فرامین پر عمل کرتے ہوئے کسی حال میں اسے قبول کرنا جائز نہیں: (( مَنْ أَحْدَثَ فِی أَمْرِنَا ہٰذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَہُوَ رَدٌّ۔)) (متفق علیہ) ’’جس نے ہمارے اس امر (دین) میں کوئی نیا کام جاری کیا جو کہ اس میں سے نہیں تو وہ مردود ہے۔‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (( إِیَّاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُوْرِ، فَإِنَّ کُلَّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٌ وَکُلَّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ وَکُلَّ ضَلَالَۃٍ فِی النَّارِ۔)) ’’دین میں نکالے گئے نئے نئے کاموں سے اجتناب کرو ،کیونکہ ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی کا انجام جہنم ہے۔‘‘ اسے احمد، اصحاب السنن اور بیہقی نے روایت کیا ہے، جبکہ آخری جملہ نسائی اور بیہقی کے نزدیک ہے، اور اس کی اسناد صحیح ہے۔ یہ قول علمائے کلام کی ایک جماعت نے کہا ہے اور ان سے متاثر ہونے والے بعض متاخر علمائے اصول نے، بعض ہم عصر مؤلفین نے اسے کسی جانچ پڑتال اور کسی دلیل کے بغیر ان سے قبول کیا ہے۔ عقیدے کا معاملہ اس طرح تو نہیں، خاص طور پر جو اس کے ثبوت کے لیے دلالت و ثبوت میں قطعیت کی شرط لگاتا ہے! اور شیخ رحمہ اللہ نے اپنے رسالے ’’الحدیث حجۃ بنفسہ فی العقائد والاحکام‘‘ (ص۵۱۔۵۵) میں فصل سوم کے تحت فرمایا: ٭ آحاد حدیث عقائد و احکام میں حجت ہے: جو یہ کہتے ہیں کہ حدیث آحاد سے عقیدہ ثابت نہیں ہوتا، وہ اس وقت یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ احکام شریعت حدیث آحاد سے ثابت ہوتے ہیں، انہوں نے اس طرح عقائد و احکام کے درمیان فرق کیا، کیا آپ کتاب و سنت کے پیش کردہ دلائل میں اس تفریق کو پاتے ہیں؟ ہرگز نہیں اور ہزار بار ہرگز نہیں، بلکہ وہ اپنے عموم و اطلاقات کے ساتھ عقائد کو بھی شامل ہیں اور وہ اس میں آپ کی اتباع کو واجب قرار دیتی ہیں، کیونکہ وہ بلاشک اس ضمن سے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کا فرمان ’’أَمْرًا‘‘ شامل ہے جو کہ اس آیت میں ہے: ﴿وَمَا کَانَ لِمُؤمِنٍ وَّلَا مُؤمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَہُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ
Flag Counter