Maktaba Wahhabi

149 - 756
سبکی نے فرمایا: ’’اگر وہ مطلوب نہ ہوتی تو وہ بدعت مذمومہ ہوتی جیسا کہ ’’الرغائب‘‘ شعبان کی پندرھویں شب اور رجب کا پہلا جمعہ، تو اس کا انکار و بطلان تھا (یعنی: تراویح کی جماعت سے انکار کا بطلان) واجب تھا جو دین سے ضروری طور پر معلوم ہے۔‘‘ علامہ ابن حجر ہیثمی نے اپنے فتویٰ میں بیان کیا، اس کی عبارت درج ذیل ہے: ’’یہود و نصاریٰ کو جزیرہ عرب سے نکالنا اور ترکوں سے قتال کرنا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے وقوع پذیر ہوا تو وہ بدعت نہ تھی، اگرچہ وہ آپ کے عہد میں نہیں ہوا اور نماز تراویح کے بارے میں عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان: ’’نعمت البدعۃ ہذہ‘‘ سے ان کی مراد ’بدعت لغوی‘ ہے، اور اس کا معنی ہے: وہ کام کرنا جس کی پہلے سے مثال نہ ہو، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿مَا کُنْتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ﴾ (الاحقاف:۴۶) ’’میں کوئی نیا رسول نہیں ہوں۔‘‘ یہ بدعت شرعیہ نہیں، کیونکہ بدعت گمراہی ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اور جن علماء نے اس کو حسن اور غیر حسن میں تقسیم کیا ہے، تو وہ ’بدعت لغوی‘ کی تقسیم ہے، اور جس نے کہا: ہر بدعت گمراہی ہے، تو اس کا معنی ہے: شرعی بدعت، کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ صحابہ کرام اور احسان کے ساتھ ان کی پیروی کرنے والے تابعین، انہوں نے پانچوں نمازوں کے علاوہ، جیسے دونوں عیدوں کے لیے، اذان دینے کی تردید کی۔ جبکہ اس بارے میں ممانعت نہیں ہے، انہوں نے دونوں شامی رکنوں کے استلام کو نا پسند کیا، طواف پر قیاس کرتے ہوئے صفا و مروہ کے درمیان سعی کے بعد نماز پڑھنے کو ناپسند فرمایا، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام مقتضی کے باوجود کسی کام کو ترک کیا تو اب اس کا ترک کرنا ہی سنت ہے، جبکہ اس کا کرنا بدعت مذمومہ ہے، اور ہمارے قول سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں یہودیوں کو (جزیرہ عرب سے) نکالنا اور مصحف کی جمع و تدوین موقع ہونے کے باوجود خارج ہوگیا، اور آپ نے جسے کسی رکاوٹ کی وجہ سے ترک کیا جیسے باجماعت نماز تراویح، کیونکہ مقتضی تام میں عدم مانع [1] داخل ہوتا ہے۔‘‘[2] اور قاسمی رحمہ اللہ نے ’’إصلاح المساجد‘‘ (ص۱۵) میں فرمایا: بدعت حسنہ اور بدعت سیۂ کی تقسیم: محدثات، بدعات مستحسنہ اور بدعات مستقبحہ میں تقسیم ہوتے ہیں۔ حرملہ نے کہا: میں نے شافعی رحمہ اللہ کو فرماتے ہوئے سنا: ’’بدعت کی دو قسمیں ہیں: بدعت محمودہ، بدعت
Flag Counter