Maktaba Wahhabi

148 - 756
استدلال دو امور پر عام ہوا: اوّل…: نماز تراویح کے لیے اجتماع بدعت ہے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں نہیں تھی، یہ (استدلال) بہت بڑی غلطی ہے، ہم اس پر کلام کو طول نہیں دیں گے، کیونکہ وہ واضح ہے، اس (استدلال) کے ابطال پر دلیل کے طور پر وہ احادیث متقدمہ ہمارے لیے کافی ہیں جن میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کی تین راتیں صحابہ کرام کو باجماعت تراویح پڑھائی، اگر آپ نے جماعت ترک کی تھی تو وہ فرض ہوجانے کے اندیشے کے پیش نظر تھی۔ دوم …: بدعت میں قابل مدح حصہ بھی ہے، اور انہوں نے اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: ’’کل بدعۃ ضلالۃ‘‘ کے عموم سے خاص کیا ہے اور اس طرح کی دیگر احادیث سے، اور یہ (استدلال) بھی باطل ہے۔ پس وہ حدیث اپنے عموم پر ہے۔ جبکہ عمر رضی اللہ عنہ کے فرمان: ’’نعمت البدعۃ ہذہ‘‘ سے بدعت کا شرعی معنی مراد نہیں، جو دین میں کسی ایسی چیز کو جاری کرنا ہے جس کی پہلے سے مثال نہ ہو، جبکہ معلوم ہے کہ آپ ( رضی اللہ عنہ ) نے کوئی نئی چیز جاری نہیں کی تھی، بلکہ انہوں نے زیادہ سے زیادہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا احیا کیا تھا، انہوں نے بدعت سے اس کا لغوی معنی مراد لیا تھا اور وہ ہے: وہ نیا کام جو اس کی ایجاد سے پہلے معروف نہ تھا، اس میں کوئی شک نہیں۔ نمازِ تراویح ایک امام کے پیچھے باجماعت پڑھنا ابوبکر کی خلافت میں معروف و معمول نہ تھا اور نہ عمر کی خلافت کے کچھ حصے میں۔ جیسا کہ بیان ہوا، تو وہ اس اعتبار سے نئی تھی، لیکن غور کریں کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کے موافق تھی، وہ سنت ہے بدعت نہیں، اور انہوں نے صرف اسی معنی میں اسے اچھی بدعت سے موصوف قرار دیا ہے، محقق علماء نے عمر کے اس قول کی وضاحت میں اسی معنی کو اختیار کیا ہے: سبکی (عبد الوہاب) نے ’’إشراق المصابیح فی صلاۃ التراویح‘‘ (۱/۱۶۸) میں ’’الفتاویٰ‘‘ سے نقل کیا: ’’ابن عبد البر نے فرمایا: عمر نے اس (باجماعت نماز تراویح کے) سلسلے میں وہی کیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا اور اسے پسند فرمایا تھا، اور آپ نے صرف اس اندیشے کے پیش نظر اس پر دوام اختیار نہیں کیا کہ وہ آپ کی امت پر فرض نہ کردی جائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مومنوں پر مشفق و مہربان تھے، پس جب عمر رضی اللہ عنہ نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جان لیا، اور انہوں نے جان لیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد فرائض میں کمی بیشی نہیں کی جاسکتی، آپ نے لوگوں کے لیے اس کا اہتمام کرایا، اس کا احیا کیا اور اس کے متعلق حکم فرمایا اور یہ ۱۴ھ کا واقعہ ہے، اور یہ وہ چیز ہے جسے اللہ نے ان کے لیے ذخیرہ بنایا اور اس کے ذریعے ان کو فضیلت بخشی اور ابوبکر کو اس کا الہام نہیں کیا، اگرچہ وہ نیکی کے ہر عمل میں عمومی طور پر سب (صحابہ) پر سبقت لے جاتے تھے، اور ان دونوں میں سے ہر ایک کے اپنے اپنے فضائل ہیں، جو ان کے ساتھ خاص ہیں۔ ایک کے فضائل دوسرے صحابی کے لیے نہیں۔‘‘
Flag Counter