ہیں، امام ابوجعفر طحاوی رحمہ اللہ نے فرمایا:
عترت سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت ہیں‘ جو آپ کے دین پر ہیں، اور آپ کے حکم پر مضبوطی سے قائم ہیں۔‘‘
شیخ علی القاری نے بھی اسی جگہ، جس کی طرف ابھی اشارہ کیا گیا ہے، اس طرح ذکر کیا ہے، پھر بیان کیا کہ اہل بیت کے ذکر کرنے کی تخصیص میں جو وجہ ہے وہ آپ کے قول سے معلوم ہوتی ہے:
’’اہل بیت اکثر گھر والے اور اس کے احوال سے بخوبی آگاہ ہوتے ہیں، ان سے اہل علم مراد ہیں جو آپ کی سیرت سے آگاہ ہوتے ہیں، آپ کے طریق سے واقف ہوتے ہیں اور آپ کے حکم و حکمت کو جاننے والے ہوتے ہیں۔‘‘
اسی لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اللہ سبحانہ کی کتاب کے ساتھ موازنہ ہو جیسا کہ اس نے فرمایا: ﴿وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ﴾ (الجمعۃ:۲) ’’وہ انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔‘‘
میں نے کہا: اللہ تعالیٰ کا آیت تطہیر میں، جو کہ بیان ہو چکی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج سے خطاب بھی اس مثل ہے، فرمایا: ﴿وَاذْکُرْنَ مَا یُتْلٰی فِیْ بُیُوْتِکُنَّ مِنْ اٰیَاتِ اللّٰہ وَالْحِکْمَۃِ﴾ (الاحزاب: ۳۴) ’’اور تمہارے گھروں میں جو اللہ کی آیتیں اور دانائی کی باتیں پڑھ پڑھ کر سنائی جاتی ہیں ان کو یاد رکھو۔‘‘
واضح ہوا کہ اہل بیت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو مضبوطی سے تھامنے والے مراد ہیں، پس وہ حدیث میں مقصود بالذات ہو گا، اور اسی لیے آپ نے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی حدیث میں اس کو ثقلین میں سے ثقل اوّل جو کہ قرآن ہے کے مقابل ایک ثقل قرار دیا، اور ’’نہایہ‘‘ میں ابن الاثیر کا قول اسی طرف اشارہ کرتا ہے:
’’آپ نے ان دونوں کا نام ’’ثقلین‘‘ رکھا ہے، کیونکہ ان دونوں (یعنی: قرآن و سنت) کو اخذ کرنا اور ان دونوں پر عمل کرنا ثقیل ہے، اور ہر اہم نفیس چیز کو ’’ثقل‘‘ کہا جاتا ہے، آپ نے ان دونوں کا‘ ان کی عظیم قدر اور بڑی شان کے پیش نظر ’’ثقلین‘‘ نام رکھا۔ ‘‘
میں نے کہا: حاصل یہ ہے کہ اس حدیث میں اہل بیت کا ذکر قرآن کے مقابل ذکر کرنا اسی طرح ہے جس طرح خلفاء راشدین کی سنت کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے ساتھ ذکر کرنا ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((فَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَ سُنَّۃِ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِیْنَ)) ’’تم پر میری اور خلفاء راشدین کی سنت اختیار کرنا لازم ہے…‘‘ شیخ القاری نے (۱:۱۹۹) فرمایا:
’’کیونکہ انہوں نے میری ہی سنت پر عمل کیا، پس ان کی طرف اضافت، یا تو اس (سنت) کے متعلق ان کے علم کی وجہ سے ہے یا ان کے اس سے استنباط اور اس کے اختیار کرنے کی وجہ سے ہے۔‘‘
|