Maktaba Wahhabi

365 - 756
ہے اور یہ گہری سمجھ داری ہے، اور جس نے اس کی گرفت کی تو اسے توفیق نہ ملی۔’’ تأسیس الأحکام‘‘ (۵۶)۔ اور شیخ نجمی نے مذکورہ بالا حدیث کی شرح میں بھی بیان کیا: تیسرا مسئلہ:… مونچھیں کترنا، اور یہ لفظ امر ’’قصوا، جزوا‘‘ اور ’’احفوا‘‘ کے ساتھ مختلف روایات میں بیان ہوا ہے، اور وہ سب جائز ہے۔ لیکن انہوں نے اس میں اختلاف کیا ہے کہ ان میں افضل کیا ہے: ’’القص‘‘ (کترنا) یا ’’احفاء‘‘ (خوب اچھی طرح کترنا)؟ اور احسن قول یہ ہے کہ اس کے بارے میں اختیار ہے، ممکن ہے کہ کہا جائے: جب ’’قص‘‘ کا لفظ تقصیر اور استئصال (خوب کاٹنا) پر صادق آتا ہو، احفاء کی روایت آئی تو اس نے اسے استئصال کو متعین کیا۔ ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’تأسیس الاحکام‘‘ (ص۵۷) میں یہ بیان کیا: روایات کے درمیان جمع و تطبیق کا جو طریق ہے اس کے تقاضے کے مطابق یہی زیادہ راجح ہے، لیکن اس کے استئصال کی مراد میں قابل غور بات باقی ہے: کیا ساری مونچھیں مراد ہیں یا صرف وہ جو ہونٹ کے کنارے پر ہوں؟ یہ وہ چیز ہے جس بارے میں سلف میں اختلاف ہے، اور جب ہم نے درج ذیل امور پر غور کیا تو ہمارے نزدیک قابل ترجیح دوسرا امر ہے، وہ امور یہ ہیں: ۱۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: ((مَنْ لَّمْ یَأخُذْ مِنْ شَارِبِہٖ فَلَیْسَ مِنَّا)) [1] ’’جو اپنی مونچھوں میں سے نہ لے (نہ کترے) تو وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘ آپ نے یہ نہیں فرمایا: ’’مَنْ لَّمْ یَاْخُذْ شَارِبَہُ‘‘ جو اپنی مونچھیں نہ کترے۔‘‘ ۲۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل آپ کے فرمان کی وضاحت کرتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح ثابت ہے کہ آپ نے مغیرہ بن شعبہ کو دیکھا کہ ان کی مونچھیں بہت زیادہ ہو گئی تھیں، تو آپ نے انہیں بلیڈ/ چھری کے ساتھ مسواک پر (رکھ کر) کتر دیا، یہ اس مسئلے میں دلیل ہے، اسی لیے مالک رحمہ اللہ مونچھیں مونڈنے کو بدعت کہتے تھے، اور اس میں مبالغہ کرتے، تو جو ایسے کرتا وہ اس کے متعلق کہتے تھے: میں سمجھتا ہوں کہ اس کی پٹائی کر کے اسے تکلیف پہنچائی جائے!! ہمارے شیخ… قدس اللّٰہ روحہ … نے ’’صحیح الجامع‘‘ کے حاشیے میں حدیث رقم (۶۵۳۳) کے تحت یہ بیان کیا:
Flag Counter