یہ حدیث [1] اس پر دلالت کرتی ہے کہ مونچھوں کے بارے میں شرعی حکم یہ ہے کہ ان میں سے کچھ کتری جائیں، اور یہ وہ ہیں جو ہونٹ پر لمبی ہو جائیں، اور رہا ان ساری کو ختم کر دینا جیسا کہ بعض صوفیاء وغیرہ کرتے ہیں، تو وہ اسی طرح ہے جس طرح مالک نے فرمایا: کہ وہ مثلہ کرنا ہے۔
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’آداب الزفاف‘‘ (۲۰۹) میں اس حدیث ((اَنْھِکُوا الشَّوَارِبَ، وَاعْفُوا اللُّحٰی)) [2] کی شرح میں بیان کیا:
یعنی (مونچھیں) کترنے میں خوب مبالغہ کرو، اور اس کی مثل ’’جزوا‘‘ ہے، اور کترنے میں مبالغے سے مراد جو ہونٹ پر آگئی ہوں، نہ کہ ساری مونچھیں، مونڈ دینا مراد ہے، اس لیے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت سنت کے خلاف ہے، اسی لیے جب (امام) مالک سے مونچھیں خوب اچھی طرح کترنے والے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: میں سمجھتا ہوں اس کی پٹائی کر کے اسے تکلیف پہنچائی جائے، اور مونچھیں مونڈنے والے کے بارے میں فرمایا: یہ ایک بدعت ہے جو لوگوں میں ظاہر ہوئی ہے، اسے بیہقی (۱/۱۵۱) نے روایت کیا ہے، اور دیکھیں: ’’فتح الباری (۱۰/۲۸۵۔۲۸۶)‘‘ اسی لیے مالک کی مونچھیں پوری تھیں، جب ان سے اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: زید بن اسلم نے مجھے حدیث بیان کی، انہوں نے عامر بن عبداللہ بن زبیر سے کہ عمر رضی اللہ عنہ کو جب غصہ آتا تھا تو وہ اپنی مونچھوں کو بٹ دیتے تھے اور پھونک مارتے تھے، طبرانی نے ’’المعجم الکبیر‘‘ (۱/۴/۱) میں صحیح سند سے اسے روایت کیا، اور انہوں نے روایت کیا (۱/۳۲۹/۲)، اور ابو زرعہ نے اپنی تاریخ (۴۶/۱) میں، اور بیہقی نے روایت کیا ہے: ’’پانچ صحابہ اپنی مونچھوں کو مونڈتے تھے (استئصال کرتے تھے)، وہ ہونٹ کے کنارے کے ساتھ صفایا کرتے تھے۔‘‘ اس کی سند حسن ہے۔ اور اسی طرح ابن عساکر (۱/۵۲۰/۲) میں ہے۔
ہمارے شیخ نے ’’مختصر الشمائل‘‘ (ص۹۵) حدیث رقم (۱۴۰) کے تحت بیان کیا:
اور حدیث میں [3] مونچھ کے بارے میں سنت اسے اس کے کنارے سے کترنا ہے، اور اسے مکمل طور پر مونڈنا نہیں، جیسا کہ بعض صوفیاء وغیرہ کرتے ہیں۔
اور ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’الضعیفۃ‘‘ (۱۱/۷۸۵) میں تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ بیان کیا:
مونچھوں کا کترنا ان میں سے بعض کوکترنا ہے، سب کو نہیں……‘‘ اور یہ ان کو کترنا ہے جو ہونٹ پر دراز ہو جائیں، اور بعض صحیح احادیث میں وارد لفظ ’’الحف‘‘ اور ’’الجز‘‘ سے یہی مراد ہے، جیسا کہ عملی سنت نے اس کی
|