کیا ہے، اور انہوں نے فرمایا:
’’اس میں صرف ایک یا دو حدیثیں ہیں جو قابل حجت نہیں۔‘‘
اور ہمارے شیخ الالبانی رحمہ اللہ نے حدیث رقم (۴۳۴) کے تحت جو کہ ’’الارواء‘‘ (۲/۱۸۰۔۱۸۲) سے ہے، فرمایا:
ابن نصر نے کہا:
’’میں نے اسحاق کو ان احادیث[1] پر عمل کرنے کو مستحسن قرار دیتے ہوئے دیکھا، رہے احمد بن حنبل ابوداود نے مجھے بیان کیا، انہوں نے کہا: میں نے احمد سے سنا، جبکہ اس آدمی کے متعلق سوال کیا گیا جو وتر سے فارغ ہونے کے بعد چہرے پر ہاتھ پھیرتا ہے؟ انہوں نے فرمایا: میں نے اس بارے میں کوئی چیز نہیں سنی، اور میں نے احمد کو دیکھا وہ اس طرح نہیں کرتے تھے۔ [2]
ابن نصر نے بیان کیا: یہ عیسیٰ بن میمون جس نے ابن عباس کی حدیث روایت کی ان میں سے نہیں جس کی روایت قابل حجت ہو، اسی طرح صالح بن حسان ہے، مالک سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جو دعا کے وقت اپنے ہاتھ چہرے پر پھیرتا ہے، تو انہوں نے اس پر اعتراض کیا اور فرمایا:
مجھے علم نہیں، اور عبداللہ (بن مبارک) سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جو ہاتھ پھیلا کر دعا کرتا ہے پھر انہیں چہرے پر پھیر لیتا ہے؟
انہوں نے فرمایا: سفیان نے اسے نا پسند کیا ہے۔‘‘
تنبیہ…: مصنف [3] نے اس حدیث کو اور اس سے پہلی حدیث کو ان سے اس پر استدلال کرتے ہوئے کہ نمازی دعائے قنوت میں اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرے گا، اور نماز کے علاوہ بھی، نقل کیا، اور جب آپ نے ان دونوں حدیثوں کے ضعف کو جان لیا تو پھران دونوں سے استدلال کرنا صحیح نہیں، خاص طور پر جبکہ احمد کا موقف و مذہب اس کے خلاف ہے جیسا کہ آپ نے دیکھا، اور بیہقی نے فرمایا:
’’رہا دعا سے فارغ ہو کر ہاتھوں کو چہرے پر پھیرنا تو میں نے اسے دعائے قنوت میں سلف میں سے کسی سے یاد نہیں کیا، اگرچہ ان میں سے بعض سے نماز کے علاوہ دعا کے متعلق مروی ہے، اس بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک روایت میں مروی ہے اس میں ضعف ہے، اور وہ بعض کے نزدیک نماز کے
|