علاوہ مستعمل ہے، رہا نماز میں تو وہ ایک ایسا عمل ہے جو صحیح خبر سے ثابت ہے نہ ثابت شدہ اثر سے اور نہ ہی قیاس سے، لہٰذا بہتر یہی ہے کہ اس عمل کو نہ کیا جائے، اور صرف اسی پر اکتفا کیا جائے جسے سلف، اللہ ان پر راضی ہو، نے کیا ہے وہ ہے نمازمیں ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا اور پھر انہیں چہرے پر نہ پھرنا۔‘‘
قنوت نازلہ میں رفع الیدین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کی ان مشرکین کے لیے بد دعا کے حوالے سے ثابت ہے جنہوں نے ستر قراء کو شہید کر دیا تھا، امام احمد (۳/۱۳۷) نے اور طبرانی نے ’’الصغیر‘‘ (ص۱۱۱) میں انس کی روایت سے صحیح سند کے ساتھ نقل کیا ہے۔ اور اسی کی مثل قنوت وتر میں عمر اور دیگر (صحابہ) سے ثابت ہے۔
رہا قنوت میں چہرے پر ہاتھ پھیرنا تو وہ مطلق طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے نہ آپ کے اصحاب میں سے کسی سے، لہٰذا وہ یقینی طور پر بدعت ہے۔
اور رہا ان کا (ہاتھوں کا چہرے پر) نماز کے علاوہ (دعا کے ساتھ) پھیرنا تو اس بارے میں صرف یہ اور اس سے پہلے والی حدیث ہے، اور وہ قول صحیح نہیں کہ ان دونوں میں سے ایک اپنے تمام طرق سے دوسری حدیث کو تقویت پہنچاتی ہے۔ جیسا کہ مناوی نے کیا‘ اس شدت ضعف کی وجہ سے جو طرق میں ہے‘ اسی لئے نووی نے ’’المجموع‘‘ میں بیان کیا: وہ مندوب نہیں‘ انہوں نے عز بن عبدالسلام کی متابعت میں کہا، اور انہوں نے بیان کیا: اسے صرف جاہل شخص ہی کرتا ہے۔
اور یہ بھی اس کے عدم مشروع ہونے کی تائید کرتا ہے کہ دعا میں ہاتھ اٹھانے کے بارے میں بہت سی صحیح احادیث آئی ہیں جبکہ ان میں سے کسی میں بھی ان (ہاتھوں) کو چہرے پر پھیرنے کا ذکر نہیں، یہ ان شاء اللّٰہ اس کے منکر اور اس کی عدم مشروعیت پر دلالت کرتا ہے۔
تنبیہ…: سفارینی (۱/۶۵۵) کی ’’شرح ثلاثیات مسند الامام احمد‘‘ میں یہ بیان ہوا:
’’صحیح بخاری میں انس رضی اللہ عنہ کی روایت کے حوالے سے ہے، انہوں نے کہا:
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ جب آپ دعا میں ہاتھ اٹھاتے تو آپ انھیں واپس (نیچے) نہیں لاتے تھے حتیٰ کہ آپ انھیں اپنے چہرے پر پھیرتے۔‘‘
میں نے کہا: یہ آپ رحمہ اللہ کا وہم ہے، انس کے حوالے سے بخاری میں روایت ہے نہ ان کے علاوہ کتب ستہ کے اصحاب (مؤلفین) سے مروی ہے۔
اور ہمارے شیخ نے حدیث: ’’جب تم اللہ تعالیٰ سے سوال کرو تو اس سے سیدھے ہاتھوں سے سوال کرو…‘‘ کے تحت بیان کیا اور اس کا ’’صحیح الجامع‘‘ میں ۵۹۳ نمبر ہے:
یہ اضافہ: ’’انھیں اپنے چہروں پر پھیرو۔‘‘ انتہائی کمزور ہے، اسی لیے عز بن عبد السلام نے فرمایا:
|