Maktaba Wahhabi

750 - 756
تو (اس کی نحوست کے لیے یہی) کافی ہے۔ جب میں نے اسے ابن القیم کی کتاب ’’مسألۃ السماع‘‘ (۱/۱۶۱) میں پڑھا تو میری یہ کیفیت تھی کہ میں سچ نہیں سمجھتا تھا کہ کوئی مسلمان یہ بھی کہہ سکتا ہے، حتی کہ میں نے اسے ’’الاحیاء‘‘ (۲/۲۹۸) میں غزالی کے کلام میں مطلق عبارت کے ساتھ دیکھا، اس میں مرید کے ساتھ مشروط نہیں، کتنے افسوس کی بات ہے! اور اس نے تاکیداً کہا کہ اس نے اسے اپنے اوپر سوال یااعتراض کے حوالے سے نقل کیا، اس کا خلاصہ یہ ہے: جب اللہ تعالیٰ کا کلام گانوں سے لا محالہ افضل ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ وہ قاری قرآن کے پاس کیوں جمع نہیں ہوتے؟ اس نے ان الفاظ کے ساتھ جواب دیا: ’’جان لیجیے کہ وجد کے لیے جوش پیدا کرنے کے لیے گانا سات وجوہات کی وجہ سے قرآن سے زیادہ جوش دلاتا ہے…‘‘! پھر اس نے اسے بیان کرنے کے لیے بڑے بڑے دو سے زیادہ صفحات کالے کیے، تحقیق کرنے والے کو تعجب ہوتا ہے کہ شافعیہ کے کبار فقہاء میں سے کسی فقیہ سے یہ کس طرح صادر ہو سکتا ہے، بلکہ اس بارے میں اس نے کہا جسے ہم بڑاسمجھتے تھے: ’’حجۃ الاسلام‘‘، اس کے باوجود اس کے متعلق اس کا کلام انتہائی غیر سنجیدہ ہے اس میں کوئی علم ہے نہ فقہ، یہ اس کے قول سے واضح ہوتا ہے: ’’چھٹی وجہ: یہ کہ گویّا کبھی کوئی شعر گاتا ہے وہ سامع کے حال کے موافق نہیں ہوتا تو وہ اسے نا پسند کرتا ہے اور اسے اس سے روک کر کسی اور کی درخواست کرتا ہے، ہر کلام ہر حال کے موافق نہیں ہوتا، اگر وہ دعوات میں قاری کے پاس اکٹھے ہو جائیں، تو بسا اوقات وہ کوئی آیت پڑھتا ہے وہ ان کے حال کے موافق نہیں ہوتی، جبکہ قرآن احوال کے اختلاف پر تمام لوگوں کے لیے شفا ہے … تب بچا نہیں جا سکتا کہ پڑھی گئی چیز حال کے موافق نہیں اور نفس اسے پسند نہیں کرتا، تو اس طرح اللہ تعالیٰ کے کلام سے کراہت کا خطرہ درپیش ہوتا ہے وہ اس طرح کہ وہ اسے ہٹانے اور دور کرنے کی کوئی راہ نہیں پاتا۔۔ رہا قول شاعر تو اس سے وہ مراد لینا جو اس کی مراد نہیں جائز ہے … اللہ کے کلام کی توقیر اور اسے اس سے بچانا واجب ہے، یہ ہے جو شیوخ کے سماع قرآن سے گیتوں کے سماع کی طرف پلٹنے کی وجوہات میں طعن کرتا ہے …‘‘! میں کہتا ہوں، اللّٰہ اکبر (معاملہ حد سے بڑھ گیا اور سنگین ہو گیا) مصیبت بڑھ گئی، وہ تو ابن القیم کے مذکورہ بیان میں مریدین میں محصور تھی، جبکہ غزالی تو صراحت کرتے ہیں کہ وہ شیوخ (پیروں) میں بھی ہے، وہ ان سے اس کمزور سبب کے ذریعے دفاع کرتا ہے، جو اس کے بیان کرنے کو رد سے بے نیاز کرتی ہے، واللّٰہ المستعان۔ جب غزالی یہ صراحت کرتے ہیں کہ قرآن اختلاف احوال پر تمام لوگوں کے لیے شفا ہے، تو پھر ہمارا وجد سے کیا سروکار جس کی وجہ سے صوفیاء نے سماع قرآن سے اعراض کو جائز قرار دیا، وہ وجد جس کی سب سے اچھی حالت
Flag Counter