Maktaba Wahhabi

749 - 756
کی تائید میں بات کی! اور اس کی حسن نیت کے حوالے سے عذر پیش کرنے لگا، تو میں نے اسے جواب دیا کہ حسن نیت کسی حرام کام کو حلال نہیں کر سکتی، چہ چائیکہ وہ اسے اللہ کی قربت کا ذریعہ بنا دے، مجھے بتاؤ اگر کوئی مسلمان شراب نوشی کو اس دعوی کی بنیاد پر حلال جان لے کہ وہ جنت کی شراب کی یاد دلاتی ہے؟! اسی طرح زنا کے بارے میں بھی کہا جائے گا! اللہ سے ڈر جاؤ، اور لوگوں پر اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال سمجھنے کا دروازہ نہ کھولو، بلکہ ادنی سے حیلوں سے ان حرام کردہ کاموں کو اللہ کے قرب کے حصول کا ذریعہ قرار نہ دو، تو وہ آدمی چلا گیا! یہ صوفی گیتوں کی تاثیر کی مثال ہے۔ قارئین کو دور لے جانے کی ضرورت نہیں، یہ شیخ غزالی ہیں جو بڑے مشہور ہیں کہ وہ اسلام کے داعی ہیں، اسی لیے انہیں بہت بڑا بین الاقوامی اسلامی انعام دیا گیا!! وہ اس مذکورہ گیت کو مباح قرار دیتے ہیں، خواہ وہ اُمّ کلثوم اور فیروز سے ہوں! [1] جبکہ میرے خیال میں ایک طالب علم نے ام کلثوم کے گیت سننے پر اعتراض کیا ہے: این ما یدعی ظلاما یا رفیق اللیل اینا؟ جسے تاریکی میں بلایا جاتا ہے وہ کہاں ہے۔ رات کے ساتھی کہاں ہو؟ اس نے یوں جواب دیا: ’’میری مراد کوئی دوسری چیز ہے‘‘! (ص۷۵/ السنۃ) یعنی: اس کی نیت اچھی ہے! اس سے پہلے (ص۷۰)پر اس نے حدیث ((انما الاعمال بالنیات)) (اعمال کا دارو مدارنیتوں پر ہے) سے صحیح استدلال نہیں کیا، اور یہ ان بہت سے دلائل میں سے ہے جو اس کی سنت کی سوجھ بوجھ کے متعلق جہالت پر دلالت کرتے ہیں، اس (حدیث) کا معنی تو یہ ہے کہ ’’اعمال صالحہ کا دارو مدارصالح نیتوں پر ہے۔‘‘ جیسا کہ پوری حدیث اس پر دلالت کرتی ہے،[2] اور وہ ادنی سے غور و فکر سے ظاہر ہوتا ہے، لیکن: ﴿وَمَنْ لَّمْ یَجْعَلِ اللّٰہُ لَہٗ نُوْرًا فَمَا لَہٗ مِنْ نُّوْرٍ﴾ (النور: ۴۰) ’’اور جس کو اللہ روشنی نہ عطا کرے اس کے لیے کوئی روشنی نہیں۔‘‘ میں آخر میں کہتا ہوں: اگر صوفی گیتوں کی نحوست میں ان میں سے کسی کا صرف یہی قول ہو: ’’گیت کا سننا چھ یا سات وجوہات کی بنا پر مرید کے لیے قرآن سننے سے زیادہ مفید ہے‘‘!
Flag Counter