Maktaba Wahhabi

748 - 756
فرمایا ہے: ﴿اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ﴾ (المائدۃ: ۳) ’’میں نے آج کے دن تمہارا دین مکمل کر دیا ہے:‘‘ اگر آلات موسیقی کا استعمال یا اس کا سننا دین ہوتا، اور رب العالمین کے حضور قربت کا ذریعہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے اپنی امت کے لیے خوب اچھی طرح بیان کر دیتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: (( وَالَّذِی نَفْسِیْ بِیَدِہِ مَا تَرَکْتُ شَیْئًا یُقَرِّبُکُمْ مِنَ الْجَنَّۃِ وَیُبَاعِدُکُمْ عَنِ النَّارِ اِلاَّ اَمَرْتُکُمْ بِہٖ، وَمَا تَرَکْتُ شَیْئًا یُقَرِّبُکُمْ مِنَ النَّارِ، وَ یُبَاعِدُکُمْ عَنِ الْجَنَّۃَ اِلاَّ نَھَیْتُکُمْ عَنْہُ۔)) [1] ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! ہر وہ چیز جو تمہیں جنت کے قریب کر دے اور جہنم سے دور کر دے اس کا میں نے تمہیں حکم دے دیا، اور پھر وہ چیز جو تمہیں آگ کے قریب کر دے اور جنت سے دور کر دے اس سے میں نے تمہیں منع کر دیا۔‘‘ صوفیاء کے گیتوں کے انکار اور اس بیان کے بارے میں کہ وہ بدعت گمراہی ہے میں نے جو ہو سکا مشہور علماء کے اقوال ذکر کیے ہیں، اور ہم نے گیتوں کی حرمت کو کتاب و سنت سے ثابت کیا، اور میں نے بعض گزشتہ فصول میں دوسروں کے بھی کچھ اقوال پیش کیے، جیسے شیخ الاسلام ابن تیمیہ ہیں۔ اس مناسبت سے میرے لیے ضروری ہے کہ میں قارئین کو ایک واقعہ سناؤں جو بعض مقلد طلباء کے ساتھ لعین گیتوں کے متعلق مباحثہ کرتے ہوئے پیش آیا، یہ تقریباً پچاس سال پہلے کا واقعہ ہے، میں دمشق میں اپنی دکان پر گھڑیاں مرمت کر رہا تھا، طلبہ میں سے ایک گاہک میرے پاس آیا، اس نے شام میں معروف نقش و نگار والا اغبانی عمامہ باندھا ہوا تھا، اس نے بغل میں ایک بڑا سا ظرف دبا رکھا تھا، میں نے اسے دیکھا تو میں نے گمان کیا کہ اس میں دور حاضر میں معروف گراموفون ہے، جب میں نے اس سے پوچھا تو اس نے میرے گمان کے مطابق ہی جواب دیا، میں نے اس پراعتراض کے انداز میں سوال کیا: کیا تم گویّا ہو؟ اس نے کہا: نہیں، لیکن میں گیت سنتا ہوں، میں نے کہا: کیا تم جانتے نہیں کہ اس کے حرام ہونے پر چاروں اماموں کا اتفاق ہے؟ اس نے کہا: لیکن میں اچھی نیت سے سنتا ہوں! میں نے کہا وہ کس طرح؟ اس نے کہا: میں بیٹھ کر اللہ کی تسبیح بیان کرتا ہوں اور اس کا ذکر کرتا ہوں جبکہ تسبیح میرے ہاتھ میں ہوتی ہے، اور میں ام کلثوم کے گیت غور سے سنتا ہوں، میں اس کی رس گھولتی آواز سے جنت میں الحور العین کی آواز کو یاد کرتا ہوں! میں نے اس کا سختی سے ردّ کیا۔ مجھے اب یاد نہیں کہ اس کے بعد میں نے اسے کیا کہا، لیکن جب وہ تقریبا ایک ہفتے بعد اپنی مرمت شدہ گھڑی لینے آیا، تو اس کے ساتھ ایک طالب علم آیا جو اس سے زیادہ طاقت ور تھا اور وہ جمعیت رابطہ علماء میں سے تھا، اس نے اس موضوع پر اپنے ساتھی
Flag Counter