Maktaba Wahhabi

747 - 756
کے غلے سے وظیفہ مقرر کیا جاتا ہے، اور وہ انہیں ’’بزرگ‘‘ کا نام دیتے ہیں! اگر یہ مساجد میں نہ ہو تو وہ اسے دین کے متعلق کم توجہی شمار کرتے ہیں، اور اس سے بھی بہت برا جو سرکش صوفی کرتے ہیں، پھر یہ کہ … اللہ انہیں ہلاک کرے … جب ان پر ان کے ان اشعار کے متعلق اعتراض کیا جاتا ہے جو کہ باطل پر مشتمل ہوتے ہیں تو وہ کہتے ہیں: شراب سے ہماری مرادمحبت الٰہی ہوتی ہے، یا نشے سے مراد: اس کا غلبہ ہے، یا میّہ اور لیلی اور سعدی مثلاً اس سے مراد محبوب اعظم اللہ عزوجل ہے! اور اس میں سوء ادب ہے جو اس میں ہے: ﴿وَ لِلّٰہِ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِہَا وَ ذَرُوا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْٓ اَسْمَآۂٖ﴾ (الاعراف:۱۸۰) ’’اور اللہ کے واسطے اچھے اچھے نام ہیں، پس اس کو انہیں ناموں سے پکارو اور ان لوگوں کو چھوڑو جو اس کے ناموں کی غلط تاویلیں کرتے ہیں۔‘‘ پھر انہوں نے بعض بڑے علماء سے (ص۷۵) نقل کیا کہ انہوں نے کہا: ’’حرام سماع میں سے ہمارے دور کا صوفیانہ سماع ہے، اگرچہ وہ رقص سے خالی ہو، کیونکہ اس کے مفاسد ان گنت ہیں، بہت سے اشعار جو وہ پڑھتے ہیں ان کے پڑھنے سے جو رہ جاتے ہیں وہ انتہائی برے ہیں، اس کے باوجود وہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ وہ قربت کا ذریعہ ہے، اور وہ کہتے ہیں کہ ان میں سے اکثر جو ہیں ان میں بہت زیادہ رغبت یا ڈر پایا جاتا ہے۔ اللہ انہیں ہلاک کرے وہ کہاں الٹائے جاتے ہیں!‘‘ اس سے پہلے انہوں نے (ص۷۳) عز بن عبد السلام سے ان کے سماع و رقص اور ان کی تالیوں کے بارے میں بہت سخت اعتراض نقل کیا، پھر انہوں نے ان کے وجد کے بارے میں اور اس کے متعلق علماء کے اقوال کے بارے میں بات کی، کیا ان کا اس پر مؤاخذہ ہو گا؟! اور انہوں نے ان پر اعتراض کیا اس لیے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں نہ تھا، پھر انہوں نے اس تعرض کی طرف توجہ کی جسے وہ ’’تمجید‘‘ کہتے ہیں اور وہ مناروں پر پڑھتے ہیں، اور انہوں نے اس کا انکار کیا۔ پھر انہوں نے آلات لہو و لعب کے حرام ہونے کے بارے میں احادیث ذکر کیں،ان میں سے ایک صحیح بخاری کی حدیث ہے، پھر انہوں نے ایسی مجلس میں، جہاں ایسی کوئی چیز ہو، بیٹھنے کے بارے میں حکم ذکر کیا، اور اس بارے میں علماء کے اقوال ذکر کیے۔۔۔ پھر (ص۷۹) فرمایا: ’’پھر اگر کہیں تم اس میں سے کسی چیز کا شکار ہو جاؤ! توپھر تم اس اعتقاد سے ضرور بالضرور بچو کہ اس کاگانا یا اس کا سننا قربت ہے، جیسا کہ وہ عقیدہ رکھتا ہے ان صوفیاء کا کوئی حصہ نہیں، اگر معاملہ ویسے ہی ہوتا جیسا کہ وہ کہتے ہیں تو پھر انبیاء اسے کرنے اور اپنے اتباع کو اس کا حکم کرنے میں سستی نہ کرتے ان علیہم الصلوٰۃ والسلام میں سے کسی نبی سے یہ منقول ہے نہ الہامی کتب میں سے کسی کتاب نے اس طرف اشارہ کیا ہے، اللہ تعالیٰ نے
Flag Counter