جی ہاں، مسلمانوں کے خواص اور دین اسلام اس سماع سے بری و لاتعلق ہیں جس کے ذریعے عقل و دین میں کس قدر بگاڑ پیدا ہوا، عورتوں اور بچوں کو بگاڑ کا سامنا کرنا پڑا، اس نے دین کو کس قدر خراب کیا، سنت کو ختم کیا اور فجور و بدعات کوزندہ کیا…!
اگر اس (سماع) میں صرف یہی بگاڑ ہو کہ اس کو سننے والوں کے دلوں پر قرآن سننا بھاری گزرتا ہے، جب اسے ان کے سماع کے سامنے پڑھا جائے تو اسے لمبا سمجھنا (کہ یہ قراء ت کب ختم ہوگی) اس کی آیات پر غور و فکر نہ کرنا، اس سے انہیں کوئی ذوق حاصل ہوتا ہے نہ وجد اور نہ ہی حلاوت، بلکہ اکثر حاضرین … یا ان میں سے اکثر … اس کی طرف توجہ نہیں کرتے، وہ اس کے معانی کو درست طرح سمجھتے ہیں نہ اس کی تلاوت کے وقت اپنی آوازیں پست کرتے ہیں …
(اشعار کا ترجمہ): کتاب کی تلاوت کی گئی تو وہ چل دیے، وہ ایسا خوف کی وجہ سے نہیں کرتے بلکہ وہ لاپروا اور غافل شخص کی طرح چل پڑتے ہیں، اور جب گانا آتا ہے تو مکھی کی طرح رقص کرتے ہیں، واللہ! وہ اللہ کی وجہ سے ایسا نہیں کرتے۔ دف، باجا اور گلوکار کی سر الغرض جب بھی آپ دیکھیں گے آلاتِ موسیقی کے ساتھ عبادت کی جاتی ہے۔ کتاب الٰہی ان پر گراں گزرتی ہے، اس لیے کہ انہوں نے دیکھا کہ اس میں اوامر ونواہی کی پابندی لگائی گئی ہے۔ گانے کے بعد انہیں رقص خفیف لگتا ہے۔ باطل کا مشتبہ امور کے ساتھ التباس ہوگیا ہے۔ دین محمد سے خیانت اس امت نے خود کی ہے، اسی نے اسے نقصان پہنچایا اور زچ کیا۔[1]
مجموعی طور پر اس سماع کے دلوں، نفوس اور ادیان میں بے شمار مفاسد ہیں۔‘‘
ان میں سے مفسر محقق آلوسی [2] ہیں، انہوں نے آیت ’’لھو الحدیث‘‘ کی تفسیر، آثار اور اس میں مفسرین کے اقوال، اور ان میں جو گانوں کے حرام ہونے پر دلالت ہے اور اس بارے میں فقہاء کے مذاہب (۱۱/۷۲۔۷۳) کے بارے میں خوب محنت و کاوش کے بعد فرمایا:
’’میں کہتا ہوں: یہ گانوں اور سماع کی وبا تمام علاقوں اور تمام جگہوں میں عام ہو چکی ہے، اس سے مساجد بچی ہیں نہ کوئی اور جگہ، بلکہ کچھ گویے مقررین ہیں جو مخصوص اوقات میں مساجد میں مناروں پرایسے اشعار گاتے ہیں جو شراب، مے کدوں اور باقی ممنوع چیزوں کے وصف و بیان پر مشتمل ہوتے ہیں، اس کے باوجود ان کے لیے وقف
|