اسی لیے سیٹیاں اور تالیاں فواحش و ظلم کی طرف دعوت دیتی ہیں، اور وہ شراب کی طرح اللہ کے ذکر کی حقیقت اور نماز سے روکتی ہیں، سلف اسے ’’تغبیر‘‘ کا نام دیتے ہیں! کیونکہ ’’تغبیر‘‘ کسی چمڑے پر چھڑی وغیرہ مارنا ہے، اور وہ جو انسان کی آواز کو سُر میں بدل دے، کبھی انسان کی آواز کے ساتھ دونوں ہاتھوں کی تالی، یا ران اور جلد پر چھڑی مار کر یا ہاتھ پر ہاتھ مار کر یا دف بجا کر یا نصاریٰ کے ناقوس کی طرح طبل بجا کر یا یہود کے بگل کی طرح سیٹی میں پھونک مار کر اس آواز کے ساتھ ملا دیا جاتا ہے، تو جو شخص یہ کام دین اور تقرب کے لیے کرتا ہے تو اس کی گمراہی اور جہالت میں کوئی شک نہیں۔
بعض علماء وہ ہیں جنہوں نے صوفی گیتوں کی تردید میں مبالغہ کیا ہے: وہ قاضی ابوالطیب طبری ہیں، [1] انہوں نے کہا:
’’یہ گروہ مسلمانوں کی جماعت کے مخالف ہے، اس لیے کہ انہوں نے گیتوں کو دین اور نیکی کا درجہ دے دیا، اور اس گروہ نے مساجد، تمام مبارک جگہوں اور عزت کی جگہوں پر اس کو جائز سمجھا۔[2]
ان میں سے امام طرطوشی [3] ہیں، ان سے کچھ لوگوں کے بارے میں پوچھا گیا جو کسی جگہ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں، پھر کوئی اشعار پڑھنے والا شعر پڑھتا ہے، تو وہ رقص کرتے ہیں، جھومتے ہیں اور دف بجاتے ہیں، کیا ان کے ساتھ شریک ہونا حلال ہے یا حرام؟
انہوں نے جواب دیا: صوفیاء کا یہ مذہب بے بنیاد اور گمراہی ہے، اسلام تو کتاب اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا نام ہے، رہا رقص و وجد، تو اسے سب سے پہلے سامری کے پیروکاروں نے شروع کیا تھا جب اس نے ان کے لیے ایک بچھڑا بنایا جو کہ بولتا تھا، وہ آتے اور اس کے گرد رقص کرنے لگتے اور وجد میں آجاتے، جبکہ وہ: یعنی رقص: کافروں اور بچھڑے کے بچاریوں کا دین ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کی مجلس تو اس طرح پر وقار ہوتی تھی گویا کہ ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوئے ہوں، بادشاہ اور اس کے نائبین کو چاہیے کہ وہ انہیں مساجد وغیرہ میں آنے سے منع کریں، اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لانے والے کے لیے جائز نہیں کہ وہ ان کے ساتھ شریک ہو، اور وہ ان کے باطل پر ان کا معاون نہ ہو، مالک، شافعی، ابو حنیفہ، احمد اور دیگر مسلمان اماموں کا یہی مسلک ہے۔‘‘[4]
|