(جو شخص اس کے بعد کہ اس کے لیے ہدایت واضح ہو گئی رسول کی مخالفت کرے اور مومنوں کی راہ چھوڑ کر دوسروں کی راہ چلے تو ہم اسے اس طرف پھیر دیں گے جس طرف وہ پھرا ہے، اور ہم اسے جہنم میں پہنچائیں گے جو بہت ہی بری جگہ ہے۔) مومن اس میں شک نہیں کرتا، میں کہتا ہوں: ان علماء میں سے کسی ایک پر یہ مخفی نہیں کہ مذکورہ گیت ایک نیا کام ہے، یہ اس دور میں معروف نہ تھے جنہیں بہترین زمانے قرار دیا گیا ہے۔
۲۔ یہ ان کے ہاں طے شدہ ہے، کہ اللہ کا تقرب صرف اسی عمل کے ذریعے جائز ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا ہے، جیسا کہ اس کا بیان گزر چکا ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اس کے لیے چند مثالیں بیان کی ہیں جو ہر منصف عالم شخص کے لیے ہمارے موقف کی تائید کرتی ہیں، انہوں نے فرمایا:
’’اور یہ معلوم ہے کہ دین کی دو بنیادیں ہیں، دین وہی ہے جسے اللہ نے مشروع قرار دیا، اور حرام وہی ہے جسے اللہ نے حرام قرار دیا، اللہ تعالیٰ نے مشرکوں پر طعن کیا کہ انہوں نے ایسی چیز کو حرام قرار دے دیا جسے اللہ نے حرام نہیں ٹھہرایا، اور انہوں نے ایسی چیز کو دین قرار دیا جس کا اللہ نے حکم نہیں دیا، اگر کسی عالم [1] سے اس شخص کے متعلق پوچھا جائے جو دو پہاڑوں کے درمیان دوڑ کر چکر لگاتا ہے، کیا وہ اس کے لیے جائز ہے؟ وہ جواب دے گا: ہاں، تو جب پوچھا جائے: وہ عبادت کے طور پر چکر لگاتا ہے جیسا کہ صفا و مروہ کے درمیان سعی کی جاتی ہے؟ وہ جواب دے گا: اگر اس نے یہ اس صورت وحیثیت سے کیا ہے تو وہ حرام اور منکر ہے، ایسا کرنے والے سے توبہ کرائی جائے گی، اگر اس نے توبہ کرلی تو ٹھیک ورنہ اسے قتل کر دیا جائے گا۔[2]
اگر اس سے سر ننگا رکھنے اور ازار باندھنے اور چادر لپیٹنے کے متعلق پوچھا جائے؟ تو وہ فتویٰ دے گا کہ یہ جائز ہے، جب پوچھا جائے کہ وہ اس طرح احرام کی حیثیت سے کرتا ہے جس طرح حاجی احرام باندھتا ہے؟ تو وہ جواب دے گا: وہ حرام اور منکر ہے۔
اور اگر اس شخص کے بارے میں پوچھا جائے جو دھوپ میں کھڑا ہوتا ہے؟ اس نے کہا: یہ جائز ہے، جب پوچھا جائے کہ وہ اسے عبادت کے طور پر کرتا ہے؟ تو وہ جواب دے گا: یہ منکر ہے، جیسا کہ امام بخاری نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دھوپ میں کھڑا دیکھا تو فرمایا:
’’یہ کون ہے؟‘‘
انہوں نے عرض کیا: یہ ابو اسرائیل ہے، اس نے نذر مانی ہے کہ وہ دھوپ میں کھڑا رہے گا، بیٹھے گا نہیں، اور سائے میں نہیں جائے گا اور کسی سے بات بھی نہیں کرے گا! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
|