حسن، عن ابراہیم بن المہاجر، عن ابراہیم: ’’ کہ وہ اپنی بیٹی کو تسبیح، جس پر تسبیح شمار کی جاتی ہے، کے دھاگے بٹنے پر عورتوں کی معاونت کرنے سے منع کیا کرتے تھے۔‘‘
میں کہتا ہوں: یہ سند جید ہے اس کے سارے راوی ثقہ ہیں اور مسلم کے راوی ہیں…
جب امام مذکور [1] کی تسبیح کے دھاگے بٹنے کے متعلق یہ رائے ہے، تو پھرتسبیح کے متعلق ان کی رائے کیا ہو گی؟ کوئی شک نہیں کہ وہ اس کی بہت سخت تردید کرنے والے ہوں گے۔
پھر شیخ (حبشی) نے کہا: ’’جب تم نے یہ نہ پایا تو پھر تم کس کے ساتھ ہو؟‘‘
میں کہتا ہوں: ہم نے تمہاری توقعات کے برعکس تمہارے لیے کئی ایک سلف سے ثبوت و دلائل پالیے ہیں تو کیا ان میں کوئی ایسی چیز ہے جو تمہارے لیے اطمینان کا باعث ہو؟
پھر چھوڑیے میں سلف میں سے کسی کو نہیں جانتا کہ انہوں نے تسبیح کی مخالفت کی ہو۔ اس کی کیا قیمت جب کہ میں اس کی اس لیے مخالفت کرتا ہوں کہ وہ سنت کے خلاف ہے، اور بہترین طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے، جبکہ وہ (تسبیح) بالاتفاق ایک نئی چیز ہے، کیا بدعات کی تفصیلات کی تردید میں اہل علم و عقل نے یہ شرط قائم کی ہے کہ وہ سلف میں سے کسی ایک سے صحیح اسناد کے ساتھ ہم تک منقول ہو کہ انہوں نے اس کا بدعت ہونے کے حوالے سے انکار کیا ہو؟ یہ ایسی بات ہے جسے علم کی ادنی سی معرفت رکھنے والا کوئی شخص نہیں کہتا!
اس سے تمہارے رسالے میں تسبیح کے متعلق تمہارے کلام کا آخری جملہ بھی ساقط ہو گیا۔
اس (تسبیح) کے متعلق اوراق کالے کرنے اوروقت ضائع کرنے کے متعلق اللہ کے حضور ہی شکایت کی جا سکتی ہے، شیخ(حبشی) اس بات پر ہمارے ساتھ متفق ہیں کہ انگلیوں کے پوروں پر تسبیح شمار کرنا افضل ہے جیسا کہ کئی بار بیان گزر چکا، جناب شیخ آئیں لوگوں کو اس چیز کی طرف دعوت دیں جس پر ہمارا اتفاق ہے، اور اس شرط پر کہ ہم سب کی غایت سنت کے احیاء اور بدعت کی بیخ کنی کرنے کے لیے پوری کوشش ہو ہم اپنے اختلافی امور میں ایک دوسرے سے درگزر کریں۔ اللہ اس شخص پر رحم فرمائے جس نے یہ کہا:
و خیر أمور الدین ما کان سنۃ
و شر الأمور المحدثات البدائع
’’امور دین وہ بہتر ہیں جو سنت ہوں۔ جبکہ بدترین امور وہ ہیں جونئے ایجاد کیے گئے ہوں۔‘‘
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’الرد علی التعقیب الحثیث‘‘ میں فصل (خاتمۃ الرد) (ص۶۳۔۶۵) کے تحت بیان کیا:
|