’’لسان العرب‘‘ میں ان الفاظ کے ساتھ بیان ہوا ہے: ’’السبحۃ‘‘: وہ ڈورے میں پروئے ہوئے گھونگے ہیں جن کے ذریعے تسبیح کرنے والا اپنی تسبیح کو شمار کرتا ہے، اور وہ (السبحۃ) ایک نیا کلمہ ہے۔‘‘
اور الزبیدی کی ’’شرح القاموس‘‘ میں ہے: ’’وہ ایک نیا کلمہ ہے، الازہری نے کہا: ہمارے شیخ نے کہا: یہ (السبحۃ) لغت میں ہے نہ عرب اسے جانتے ہیں، یہ ابتدائی دور میں ذکر پر یاد دہانی اور چاک وچوبند رکھنے پر اعانت کے لیے وجود پذیر ہوئی۔‘‘
اور لغت کے علوم و آداب میں تسلیم شدہ ہے: کہ ’’المؤلد‘‘ (بنائے ہوئے نئے الفاظ) جسے ایجاد کرنے والے ایجاد کرتے ہیں ان کے الفاظ سے استدلال نہیں کیا جاتا، وہ لوگ ابتدائی دور کے بعد پائے گئے۔ [1]
یہ اس پر ظاہر دلالت کرتا ہے کہ وہ حدیث ابتدائی زمانے کے بعد گھڑی گئی، کیونکہ لفظ ’’السبحۃ‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لغت سے ہے نہ آپ کے اصحاب کی لغت سے ہے، لغت کی معرفت رکھنے والے اس کی شہادت دیتے ہیں، پس یہ ان قرائن میں سے ہے جن کی طرف حافظ نے یوں اشارہ کیا ہے: ’’اور جن قرائن سے موضوع روایت کا ادراک ہوتا ہے ایک صورت وہ ہے جو روایت کی حالت سے اخذ کی جاتی ہے۔‘‘
واضح ہوا کہ دانوں/ منکوں والی تسبیح اپنی اصلیت اور نام کے لحاظ سے ایجاد کی گئی ہے، اور یہ بات اس روایت کے موضوع ہونے پر قطعی دلالت کرتی ہے۔ واللّٰہ الموفق
پھر ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’التعقیب الحثیث‘‘ (ص۵۳۔۵۴) میں بیان کیا:
پھر اس شیخ (حبشی) نے کہا: کیا تم سلف میں سے کسی ایک کو جانتے ہو کہ اس نے تسبیح کی اس طرح مخالفت کی ہو جس طرح تم مخالفت کرتے ہو، اور اس سے صحیح اسناد کے ساتھ تم تک یہ بات پہنچی ہو۔‘‘ [2]
میں کہتا ہوں: ہاں، سن لو وہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہیں، انہوں نے تو اس چیز کی بھی مخالفت کی جو کہ تسبیح سے کم درجے کی ہے وہ کنکریوں پر شمار کرنا ہے، اور انہوں نے ایسا کرنے والوں کو گمراہی کی دم تھامنے والے شمار کیا! جیسا کہ ہم نے اسے ان سے صحیح سند کے ساتھ بیان کیا: ﴿فَہَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ﴾ (القمر:۱۵) ’’کیا ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا؟‘‘
تابعین میں سے جس نے تسبیح کی مبالغے کی حد تک تردید کی ہے انہوں نے تسبیح کے لیے دھاگہ بٹنے کے عمل کو بھی ایک منکر عمل شمار کیا ہے! تو کیا تسبیح کی تردید کے بارے میں اس سے کوئی زیادہ بلیغ چیز ہو سکتی ہے؟! امام ابن ابی شیبہ نے ’’المصنف‘‘ (۲/۸۹/۲) میں روایت کیا: حدثنا حمید بن عبدالرحمن، عن
|