اور تسبیح کی بدعت اور اس کی سنت سے مخالفت پر میں نے اس ’’المقال‘‘ میں دلائل پیش کیے جن پر تسبیح ’’الحبشی‘‘ نے رد کیا کہ تسبیح بدعت ہے، (جو کہ شیخ رحمہ اللہ کا موقف ہے اس پر حبشی نے رد کیا ہے)
اور یہ کہ اس پر تسبیح شمار کرنا انگلیوں کے پوروں پر تسبیح کرنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کی مخالفت ہے، اور میں نے ان دونوں امور کو اس حدیث [1] کے بطلان اور اس کے وضع پر دلالت کرنے والے قرائن سے شمار کیا، لیکن شیخ (حبشی) کو اس نے خوش نہ کیا۔
رہا پہلا قرینہ[2] تو اس نے اسے ایک ظاہر مغالطے کی وجہ سے رد کیا اور وہ (ص۱۰) پر ہے:
’’کاش مجھے معلوم ہوتا یعنی ایسی کوئی عقل ہوتی جو قطعی طور پرمیری راہنمائی کرتی کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تسبیح کا وجود نہیں تھا۔‘‘
مغالطے کي وجہ: میں نے اس عہد مبارک میں … عقلاً … تسبیح کے وجود کے عدم امکان کا دعوی نہیں کیا۔ کیونکہ یہ اس زمرے میں نہیں‘‘ جس کے وجود کا عقل میں قطعاً تصور نہیں کیا جا سکتا، اور تسبیح مسائل نظریہ میں سے نہیں جس کے امکان یا عدم امکان کا عقل فیصلہ کرتی ہے، وہ تو ان مسائل سے ہے جو تاریخ سے متعلق ہیں کہ وہ موجود تھے یا نہیں تھے، جب یہ علماء کے ہاں تسلیم شدہ ہے کہ تسبیح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں نہیں تھی وہ تو دوسری صدی میں ایجاد ہوئی، تب یہ اس حدیث کا اس اعتبار سے انکار ہو جاتا ہے کہ وہ صحابہ کو ایک ایسے کام پر آمادہ کرتی ہے جسے وہ جانتے ہی نہیں، اور یہ … میری مراد: آمادہ کرنا … اس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صدور غیر معقول ہے جبکہ تسبیح کا وجود ہی نہیں، پس اس نے حدیث کے وضع اور اسے وضع کرنے والے کے تسبیح کی تاریخ سے نابلد ہونے پر دلالت کیا۔
ہم ان قرائن سے ایک اہم قرینے کا سہارا لیتے ہیں جن سے ہمارے شیخ البانی رحمہ اللہ نے استدلال کیا وہ تسبیح کا لغت عرب میں عدم وجود ہے، پس ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’الرد علی الحبشی‘‘ (ص۱۳۔۱۴) میں بیان کیا:
تسبیح والی روایت کے بطلان پر تیسرا قرینہ: میں اعتقاد رکھتا ہوں کہ جو کچھ بیان ہو چکا وہ روایت کے اس کے معنی کے حوالے سے بطلان پر شیخ کے اطمینان کے لیے کافی کچھ ہے، لیکن اس کے باوجود کہ جو کچھ بیان ہو چکا میں اس میں اس کے بطلان پر ایک اور قرینے کا اضافہ کرتا ہوں، میں کہتا ہوں:
|