۱۳۹: اجابت کی امید کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کا قصد کرنا اور اس کے پاس دعا کرنا:
’’الإختیارات العلمیۃ‘‘ (۵۰)، ’’حجۃ النبی صلي الله عليه وسلم ‘‘(۱۳۸/۱۳۹)، ’’المناسک‘‘ (۶۰/۱۴۱)۔
۱۴۰: دعا میں آپ کو وسیلہ بنانا:
’’حجۃ النبی‘‘ (۱۳۸/۱۴۰)، ’’المناسک‘‘ (۶۰/۱۴۲)۔
۱۴۱: آپ سے شفاعت وغیرہ طلب کرنا:
’’حجۃ النبی صلي الله عليه وسلم ‘‘(۱۳۸/۱۴۱)، ’’المناسک‘‘ (۶۰/۱۴۳)۔
۱۴۲: ابن الحاج[1] کا ’’المدخل‘‘ (۱/۲۵۹) میں یوں کہنا کہ ادب کا تقاضا ہے: کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی زیارت کے وقت اپنی ضرورتیں اور اپنے گناہوں کی مغفرت کا ذکر نہ کیا جائے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی ضرورتوں اور مفادات کو اس سے زیادہ جانتے ہیں:‘‘
’’حجۃ النبی صلي الله عليه وسلم ‘‘(۱۳۸/۱۴۲)، ’’المناسک‘‘ (۶۰/۱۴۴)۔
۱۴۳: ابن الحاج کا ’’المدخل‘‘ (۱/۲۶۴) میں یوں کہنا: ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنی امت کو دیکھنے، ان کے احوال، ان کی نیتوں، اور ان کی حسرات و حالات کو جاننے کے حوالے سے آپ کی موت و حیات میں کوئی فرق نہیں:‘‘ ’’حجۃ النبی صلي الله عليه وسلم ‘‘(۱۳۸/۱۴۳)، ’’المناسک‘‘ (۶۰/۱۴۵)۔
۱۴۴: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے حجرے کی کھڑکی/ جالی پر حصول برکت کے لیے ہاتھ رکھنا، اور بعض کا ان الفاظ کے ساتھ حلف اٹھانا: اس حق کی قسم جس نے تیرا ہاتھ ان کی کھڑکی / جالی پر رکھا اور آپ نے کہا: اللہ کے رسول! شفاعت فرمائیں:‘‘
’’حجۃ النبی صلي الله عليه وسلم ‘‘(۱۳۸/۱۴۲)، ’’المناسک‘‘ (۶۰/۱۴۶)۔
۱۴۵: قبر کو بوسہ دینا، یا اس کا استلام کرنا یا اس چیز کا استلام کرنا جو اس کے قریب ہے جیسے لکڑی وغیرہ:
’’فتاوی ابن تیمیۃ‘‘ (۴/۳۱۰)، ’’الإقتضاء‘‘ (۱۷۶)، ’’الإعتصام‘‘ (۲/۱۳۴۔۱۴۰)، ’’إغاثۃ اللہفان‘‘ (۱/۱۹۴)، ’’الباعث‘‘ لأبی شامۃ (۷۰)، البرکوی فی ’’أطفال المسلمین‘‘ (۲۳۴)، ’’الإبداع‘‘ (۹۰)۔[2] ’’حجۃ النبی صلي الله عليه وسلم ‘‘
|